مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ قربانى کا بیان ۔ حدیث 1424

عیدین کی نماز میں اذان و تکبیر نہیں ہے

راوی:

عَنِ ابْنِ جُرَےْجٍ رحمۃ اللہ علیہ قَالَ اَخْبَرَنِیْ عَطَآءٌ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَجابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ قَالَا لَمْ ےَکُنْ ےُؤَذَّنُ ےَوْمَ الْفِطْرِ وَلَا ےَوْمَ الْاَضْحٰی ثُمَّ سَاَلْتُہُ ےَعْنِیْ عَطَآئً بَعْدَ حِےْنٍ عَنْ ذَالِکَ فَاَخْبَرَنِیْ قَالَ اَخْبَرَنِیْ جَابِرُ بْنُ عَبْدِاللّٰہِ اَنْ لَّا اَذَانَ لِلصَّلٰوۃِ ےَوْمَ الْفِطْرِ حِےْنَ ےَخْرُجُ الْاِمَامُ وَلَا بَعْدَ مَا ےَخْرُجُ وَلَا اِقَامَۃَ وَلَا نِدَآءَ وَلَا شَئَ وَلَا نِدَآءَ ےَوْمَئِذٍ وَّلَا اِقَامَۃَ۔(صحیح مسلم)

" ابن جریج" فرماتے ہیں کہ عطا نے حضرت عبداللہ ابن عباس اور حضرت جابر ابن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ " نہ تو عید کے دن (نماز عید کے لئے) اذان دی جاتی تھی اور نہ بقر عید کے دن " ابن جریج فرماتے ہیں کہ " کچھ مدت کے بعد پھر میں نے دوبارہ عطاء سے یہی مسئلہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ " مجھے حضرت جابر ابن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا ہے کہ عید کے دن نماز عید کے لئے اذان نہیں ہے نہ تو امام کے باہر آنے کے وقت اور نہ امام کے باہر آجانے پر ، اور نہ تکبیر ہے اور نہ نداء ہے اور نہ کچھ اور ، اس دن نہ نداء ہے نہ تکبیر۔" (صحیح مسلم)

تشریح
ابن جریج نے یا تو عطاء سے دوبارہ اس مسئلہ کی تفصیل معلوم کی ہوگی یا بعینہ وہی مسئلہ پوچھا ہوگا۔ بہر حال عطاء نے دوسری مرتبہ کے جواب میں صرف عیدالفطر کا ذکر کیا عیدا لاضحی کا نہیں، وجہ اس کی یہ تھی کہ وہ یہ سمجھے کہ صرف عید الفطر کا ذکر کر دینا ہی کافی ہے سائل عیدالفطر پر عیدالاضحی کو بھی قیاس کر لے گا۔
" نداء" سے " الصلوٰۃ الصلوٰۃ " یا اس طرح کہ دوسرے الفاظ جو نماز کی اطلاع دینے کے لئے استعمال کئے جائیں کہنا مراد ہے " لانداء" کے بعد لفظ " لاشی" لانداء کی تاکید کہ لئے لایا گیا ہے، پھر اس کے بعد حدیث کے آخری الفاظ لا نداء یومذ ولا اقامۃ بھی تاکید کے لئے دوبارہ استعمال کئے گئے ہیں ۔ (شیخ عبدالحق)
ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ لفظ " لانداء" اول سے آخر تک پہلے جملہ کی تاکید ہے اور مناسب یہ ہے کہ لفظ نداء سے اذان مراد لی جائے کیونکہ عیدین کے موقع پر اذان و تکبیر کی بجائے الصلوٰۃ جامعۃ پکار کر کہنا تمام علماء کے نزدیک مستحب ہے۔ گویا حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے قول کے مطابق حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ عیدین کی نماز کے لئے جس طرح اذان و تکبیر مشروع نہیں ہے اسی طرح نماز کی اطلاع کے لئے کوئی اور لفظ مثلاً " الصلوٰۃ جامعہ' ' پکارنا بھی مشروع نہیں ہے جب کہ حضرت ملا علی قاری کے قول کا مطلب یہ ہے کہ عیدین کی نماز میں اذان و تکبیر تو مشروع نہیں ہاں نماز کی اطلاع دینے کے لئے نداء یعنی " الصلوۃ جامعۃ" پکار کر کہنا مستحب ہے۔
لہٰذا ان دونوں اقوال کے باہم اختلاف و تضاد کو اس تطبیق کے ذریعہ ختم کیا جائے حضرت شیخ نے نداء کی جو نفی کی ہے وہ عیدگاہ کے اندر بطریقہ التزام کے ہے یعنی ان کا مطلب یہ ہے کہ اول تو عید گاہ کے اندر اور دوسرے بطریق التزام نداء نہ دی جائے اور حضرت ملا علی قاری نے نداء کو جو مستحب لکھا ہے تو اس کا تعلق عید گاہ سے باہر اور کبھی کبھی کہنے سے ہے یعنی " الصلوٰۃ جامعۃ" عید گاہ سے باہر اور کبھی کبھی پکار کر کہنا مستحب ہے۔ وا اللہ اعلم۔

یہ حدیث شیئر کریں