امت کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت
راوی:
وَعَنْ سَعْدِ بْنِ اَبِی وَقَّاصٍ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ مَّکَۃَ نُرِیْدُ الْمَدِیْنَۃَ فَلَمَّا کُنَّ قَرِیْبًا مِنْ عَزْوَزَاءَ نَزَلَ ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْہِ فَدَعَا اﷲَ سَاعَۃٌ ثُمَّ خَرَّسَاجِدًا فَمَکَثَ طَوِیْلًا ثُمَّ قَامَ فَرَفَعَ یَدَ ْیہِ سَاعَۃٌ ثُمَّ خَرَّسَاجِدًا فَمَکَثَ طَوِیْلًا ثُمَّ قَامَ فَرَ فَعَ یَدَ ْیہٖ سَاعَۃٌ ثُمَّ سَاجَدَا قَالَ اِنِّی سَأَلْتُ رَبِّی وَ شَفْعَتُ لامِّتِیْ فَاعْطَانِی ثُلُثَ اُمَّتِیْ فَخَرَرْتُ سَاجِدَ الِّرَبِّی شُکْرًا ثُمَّ رَفْعَتُ رَأْسِی فَسَأَلْتُ رَبِّی لْاُمَّتِی فَاعْطَانِیْ ثُلُثَ اُمَّتِی فَخَرَتْ سَاجِدً الِّرَبِّی شُکْرًا ثُمَّ رَفَعْتُ رَأَسِی فَسَأَلْتُ رَبِّی لْاُمَّتِیْ فَاعَطَانِی الثَّلُثَ لْاٰخَرَ فَخَرَرْتُ سَاجِدً الِّرَبِّی شُکْرًا۔ (رواہ احمد بن حنبل و ابوداؤد)
" اور حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مدینہ کے ارادہ سے مکہ سے روانہ ہوئے، جب ہم عزوازا کے قریب ( جو مکہ اور مدینہ کے درمیان میں ایک مقام ہے) پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اونٹنی سے) اترے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر تھوڑی دیر تک اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے (دعا مانگتے) رہے ، پھر سجدہ میں گر پڑے۔ اور دیر تک سجدہ میں رہے پھر کھڑے ہوئے اور تھوڑی دیر تک اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا مانگتے رہے ۔ پھر سجدہ میں گر پڑے۔ پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " میں نے اپنے پروردگار سے دعا کی اور اپنی امت (کے گناہوں کی بخشش، عیوب کی پردہ پوشی اور بلندی درجات) کے لئے شفاعت کی، چنانچہ مجھے تہائی امت (کی مغفرت) عطا فرما دی گئی، میں اپنے رب کا شکر ادا کرنے کے لئے سجدہ میں گر پڑا۔ پھر میں نے اپنا سر اٹھایا اور اپنے پروردگار سے اپنی امت کے لئے (اس کی رضا اور مغفرت کی) درخواست کی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اور تہائی امت (کی مغفرت) عطا فرما دی میں اپنے رب کا شکر ادا کرنے کے لئے سجدہ میں گر پڑا، پھر میں نے اپنا سر اٹھایا اور اپنے پروردگار سے اپنی امت کے لئے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے
باقی تہائی امت (کی بھی مغفرت) عطا فرما دی، چنانچہ میں اپنے پروردگار کا شکر ادا کرنے کے لئے سجدہ میں گر پڑا۔" (احمد بن حنبل، ابوداؤد)
تشریح
پہلی مرتبہ میں سابقین یعنی ان لوگوں کی مغفرت عطا فرمائی گئی جو بھلائی کرنے میں سبقت اور پیش روی کرتے ہیں اعمال میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہیں کرتے، دوسری مرتبہ میں مقتصدین یعنی اوسط درجہ والوں کی مغفرت عطا فرمائی گئی۔ اور تیسری مرتبہ میں ان لوگوں کی بھی مغفرت عطا فرما دی گئی جو اپنے نفس پر ظلم کرتے ہیں یعنی معصیت و گناہ میں مبتلا رہتے ہیں۔
اس موقع پر ایک اشکال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ کتنی آیات اور احادیث سے تو یہ ثاب ہو چکا ہے جو لوگ گناہ کبیرہ میں مبتلا رہتے ہیں انہیں آخرت میں عذاب دیا جائے گا لیکن یہاں اس حدیث سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ ان لوگوں کو عذاب نہیں دیا جائے گا کیونکہ تمام ہی امت کی مغفرت عطا فرما دی گئی ہے۔؟
اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں دعا، شفاعت اور حق تعالیٰ کی جانب سے مغفرت سے مراد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا و سفارش سے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو خسف و مسخ اور ان جیسے دوسرے عذابوں سے پروانہ امن دے دیا ہے کہ جس طرح پہلی امتوں کے لوگ اپنی بد کرداری اور بد اعمالی کی وجہ سے ان جیسے ہولناک عذاب میں اس دنیا میں مبتلا کر دئے جاتے تھے امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دنیا میں ان عذاب سے دو چار نہیں کیا جائے گا لہٰذا۔ یہاں مغفرت کا تعلق آخرت کے اس عذاب سے نہیں ہے جو ہر گنہگار کو اس کی بد عملی و بد کرداری کی مناسبت سے دیا جائے۔
بعض حضرات فرماتے ہیں کہ " یہاں مراد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اور سفارش سے امت مرحومہ کو دائمی عذاب سے پروانہ امن دے دیا گیا ہے کہ امت کے گناہگار و بد کردار لوگ دائمی طور پر دوزخ میں نہیں رہیں گے ۔ بلکہ اپنے اپنے جرم کی مناسبت سے سزا پا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش سے دوزخ سے نکال لئے جائیں گے اور پھر دائمی طور پر جنت میں داخل کر دئے جائیں گے۔