مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ جنازوں کا بیان ۔ حدیث 41

سخت مصیبت میں کون لوگ مبتلا ہوتے ہیں

راوی:

وعن سعد قال : سئل النبي صلى الله عليه و سلم : أي الناس أشد بلاء ؟ قال : " الأنبياء ثم المثل فالأمثل يبتلى الرجل على حسب دينه فإن كان صلبا في دينه اشتد بلاؤه وإن كان في دينه رقة هون عليه فما زال كذلك حتى يمشي على الأرض مال ذنب " . رواه الترمذي وابن ماجه والدارمي وقال الترمذي : هذا حديث حسن صحيح

حضرت سعد فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں کون شخص (محنت و مصیبت کی) زیادہ بلاء میں مبتلا ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ " انبیاء ۔ پھر وہ لوگ جو انبیاء سے بہت زیادہ مشابہ ہوں پھر وہ لوگ جو ان سے بہت زیادہ مشابہ ہوں۔ (پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا) انسان اپنے دین کے مطابق (مصیبت میں) مبتلا کیا جاتا ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص اپنے دین میں سخت ہوتا ہے تو اس کی مصیبت بھی سخت ہوتی ہے اور اگر کوئی شخص اپنے دین میں نرم ہوتا ہے تو اس کی مصیبت بھی ہلکی ہوتی ہے، (لہٰذا اپنے دین میں سخت شخص اسی طرح ہمیشہ) مصیبت و بلاء میں گرفتار رہتا ہے جس کی وجہ سے اس کی مغفرت ہوتی ہے، یہاں تک کہ وہ زمین کے اوپر اس حال میں چلتا ہے کہ (اس کے نامہ اعمال میں کوئی گناہ نہیں ہوتا " ۔ (ترمذی، ابن ماجہ، دارمی) امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تشریح
مطلب یہ ہے کہ انبیاء کرام مصیبت و بلاء میں سب سے زیادہ مبتلا ہوتے ہیں کیونکہ وہ بلاء و مصیبت میں اسی طرح لذت محسوس کرتے ہیں جس طرح کے عام انسان نعمت و راحت میں لذت محسوس کرتے ہیں، پھر ان کے بعد وہ لوگ مصیبت و سختی میں مبتلا ہوتے ہیں جو ان کے مشابہ ہوتے ہیں یعنی اولیاء اللہ اور صلحاء انہیں بھی مصیبت و تکلیف کی سخت آزمائش میں مبتلا کیا جاتا ہے تاکہ وہ بہت زیادہ ثواب کے مستحق ہوں مگر ان کی مصیبت و بلاء کی سختی انبیاء کی مصیبت و بلاء کی سختی سے کم ہوتی ہے اس کے بعد ان لوگوں کا نمبر آتا ہے جو مرتبہ اور درجہ کے اعتبار سے اولیاء اللہ سے کم ہوتے ہیں۔ آخر میں یہ کلیہ بیان فرمایا جا رہا ہے کہ جو شخص اپنے دین پر سختی سے قائم رہتا ہے اور کسی مرحلہ پر بھی اس کے قدم میں لغزش نہیں آتی اس کی مصیبت و بلاء بھی بڑی سکت ہوتی ہے کیونکہ وہ صاحب یقین ہوتا ہے چنانچہ جب وہ اپنی مصیبت کی سختی پر صبر کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ میں اپنے گناہوں کی وجہ سے اسی کا اہل ہوں تو اس کی وجہ سے اس کا ایمان کامل ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے اس کا تعلق مضبوط تر ہو جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے گناہ دور ہوتے ہیں اور اس کے درجات بلند ہوتے ہیں۔ اس کے برخلاف جو شخص اپنے دین میں نرم رو ہوتا ہے اس کی بلاء و مصیبت کی سختی بھی کم ہوتی ہے۔ تاکہ وہ بے صبری کا مظاہرہ نہ کر سکے اور اپنے ایمان و تعلق باللہ کے قوی نہ ہونے کی وجہ سے دین کے دائرہ سے نہ نکل جائے۔

یہ حدیث شیئر کریں