مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ جنازوں کا بیان ۔ حدیث 56

علاج توکل کے منافی نہیں

راوی:

وعن عطاء بن أبي رباح قال : قال لي ابن عباس رضي الله عنه : ألا أريك امرأة من أهل الجنة ؟ فقلت : بلى . قال : هذه المرأة السوداء أتت النبي صلى الله عليه و سلم فقالت : إني أصرع وإني أتكشف فادع الله تعالى لي . قال : " إن شئت صبرت ولك الجنة وإن شئت دعوت الله تعالى أن يعافيك " فقالت : أصبر فقالت : إني أتكشف فادع الله أن لا أتكشف فدعا لها

حضرت عطاء بن ابی رباح فرماتے ہیں کہ (ایک دن) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے مجھ سے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایک جنتی عورت نہ دکھلاؤں؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں!( ضرور دکھلائیے) انہوں نے فرمایا کہ " یہ کالی عورت (پھر فرمایا کہ ایک مرتبہ) یہ عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی کہ یا رسول اللہ! میں مرگی کے مرض میں مبتلا ہوں (جب مرگی اٹھتی ہے) تو میں ڈرتی ہوں کہ کہیں حالت بے خودی میں) میرا ستر نہ کھل جائے لہٰذا آپ اللہ تعالیٰ سے میرے لئے دعا کیجئے (کہ میری بیماری جاتی رہے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " اگر چاہو تو صبر کرو تاکہ تمہیں جنت ملے اور اگر چاہو تو میں دعا کروں کہ اللہ تعالیٰ تمہیں شفا دے" ۔ عورت نے عرض کیا کہ میں صبر ہی کروں گی اور پھر کہنے لگی کہ " مگر میں ستر کھل جانے سے ڈرتی ہوں، آپ اللہ سے بس یہ دعا کر دیجئے کہ (مرض کی شدت اور حالت بیخودی میں) میرا ستر نہ کھلے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے لئے دعا فرمائی" (بخاری ومسلم)

تشریح
اس عورت کا نام سعیرہ یا سقیرہ اور یا سیکرہ تھا، ایک روایت کے مطابق یہ عورت ام المؤمنین حضرت حدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی کنگھی کرنے والی تھی۔
اس حدیث سے اس طرف اشارہ ہے کہ مصیبت و بلاء پر صبر کرنے اور رضا بتقدیر رہنے کے پیش نظر دوا اور دعا کو ترک کر دینا جائز ہے۔ بلکہ حدیث کا ظاہری مفہوم تو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ صبر و رضا کے ساتھ ہمیشہ مرض میں مبتلا رہنا صحت مند اور عافیت میں رہنے سے بہتر ہے لیکن بہ نسبت بعض افراد کے یعنی یہ اس شخص کے لئے افضل ہے جس کا مرض مخلوق اللہ کی نفع رسانی کے تعطل کا باعث نہ بنے۔ نیز حدیث کا ظاہر مفہوم اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ علاج و معالجہ کا ترک کر دینا افضل ہے اگرچہ علاج و معالجہ کرنا ابوداؤد کی حدیث کے مطابق سنت ہے جس میں مروی ہے کہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ " کیا ہم (بیماری میں ) دوا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں دوا کرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کوئی مرض ایسا پیدا نہیں کیا جس کی دوا بھی پیدا نہ کی ہو۔ علاوہ بڑھاپے کے۔ چنانچہ علماء لکھتے ہیں علاج معالجہ توکل کے منافی نہیں کیونکہ علاج و معالجہ صرف اسباب کے درجہ میں ہے یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی علاج و معالجہ کو اختیار فرمایا تھا حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم متوکلین کے سردار ہیں لیکن اس کے باوجود از راہ توکل علاج و معالجہ ترک کرنا جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ترک فرمایا تھا، باعث فضیلت ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں