صابر مریض کی فضیلت
راوی:
وعن شداد بن أوس والصنابحي أنهما دخلا على رجل مريض يعودانه فقالا له : كيف أصبحت قال أصبحت بنعمة . فقال له شداد : أبشر بكفارات السيئات وحط الخطايا فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " إن الله عز و جل يقول إذا أنا ابتليت عبدا من عبادي مؤمنا فحمدني على ما ابتليته فإنه يقوم من مضجعه ذلك كيوم ولدته أمه من الخطايا . ويقول الرب تبارك وتعالى : أنا قيدت عبدي وابتليته فأجروا له ما كنتم تجرون له وهو صحيح " . رواه احمد
شداد بن اوس اور حضرت صنابحی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں مروی ہے کہ یہ دونوں ایک بیمار شخص کے پاس گئے اور اس کی عیادت کی، چنانچہ دونوں نے مریض سے پوچھا کہ تم نے صبح کیسی گزاری؟ مریض نے کہا کہ میں نے (رضاء و تسلیم اور صبر و شکر کی) نعمت کے ساتھ صبح کی (یعنی مرض و تکلیف کی وجہ سے میں کبیدہ خاطر نہیں ہوں بلکہ رضاء بتقدیر اور صبر کے دامن کو پکڑے ہوئے ہوں جس کی وجہ سے میرا دل خوش و مطمئن ہے) حضرت شداد نے فرمایا کہ " گناہوں کے جھڑنے اور خطاؤں کے دور ہونے کی بشارت سے خوش ہو، کیونکہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ عز و جل فرماتا ہے کہ جب میں اپنے بندوں میں سے کسی بندہ مؤمن کو (بیماری و مصیبت میں) مبتلا کرتا ہوں اور وہ بندہ اس ابتلاء پر (دل گیر و ناخوش نہیں ہوتا بلکہ ) میری تعریف کرتا ہے تو وہ اپنے بستر علالت سے ایسا (گناہوں سے پاک صاف ہو کر ) اٹھتا ہے جیسا کہ وہ اس دن گناہوں سے پاک صاف تھا جس روز اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ نیز پروردگار بزرگ و برتر (فرشتوں سے) فرماتا ہے کہ " میں نے اپنے بندہ کو قید میں ڈالا ہے اور اس آزمائش میں مبتلا کیا تھا، لہٰذا تم (اس کے نامہ اعمال ) وہ (نیک) اعمال لکھنا جاری رکھو جو تم اس کے زمانہ تندرستی میں لکھنا جاری رکھتے تھے" ۔ (احمد)