بخار اور اس کا علاج ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں
راوی:
وعن ثوبان أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " إذا أصاب أحدكم الحمى فإن الحمى قطعة من النار فليطفها عنه بالماء فليستنقع في نهر جار وليستقبل جريته فيقول : بسم الله اللهم اشف عبدك وصدق رسولك بعد صلاة الصبح وقبل طلوع الشمس ولينغمس فيه ثلاث غمسات ثلاثة أيام فإن لم يبرأ في ثلاث فخمس فإن لم يبرأ في خمس فسبع فإن لم يبرأ في سبع فتسع فإنها لا تكاد تجاوز تسعا بإذن الله عز و جل " . رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب
حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " جب تم میں سے کوئی شخص بخار میں مبتلا ہو اور وہ بخار (چونکہ) آگ کا ایک ٹکڑا ہے اس لئے اسے پانی سے بجھانا چاہیے لہٰذا اس شخص کو (جو بخار میں مبتلا ہے) چاہئے کہ وہ جاری نہر میں اترے اور پانی کے بہاؤ کی طرف کھڑا ہو اور یہ دعا پڑھے دعا (بسم اللہ اللہ اشف عبد و صدق رسولک)۔ شفا طلب کرتا ہوں میں اللہ کے بابرکت نام سے اے اللہ ! اپنے بندہ کو شفا دے اور اپنے رسول کو (یعنی ان کے اس قول کو سچا کر) بایں طور کہ مجھے شفا دے۔ اور یہ عمل نماز فجر کے بعد سورج نکلنے سے پہلے کرے اور تین دن تک پانی میں غوطے لگائے، اگر تین دن میں اچھا نہ ہو تو پھر (یہ عمل) پانچ دن تک کرے اور اگر پانچ دن میں بھی اچھا نہ ہو تو پھر سات دن تک (یہ عمل) کرے اور اگر سات دن میں بھی اچھا نہ تو پھر نو دن تک (یہ عمل ) کرے اور اللہ جل شانہ کے حکم سے بخار نو دن سے تجاوز نہیں کرے گا (یعنی اس عمل کے بعد بخار جاتا رہے گا) امام ترمذی نے یہ روایت نقل کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔
تشریح
لفظ و لینغمس(غوطے لگائے) دراصل لفظ فلیستنقع(نہر میں اترے) کا بیان ہے، لہٰذا اس عبارت کے یہ معنی بھی مراد لئے جا سکتے ہیں کہ تین غوطے تین دنوں میں (یعنی ایک ایک غوطہ روزانہ) لگائے جائیں اور یہ معنی بھی متحمل ہو سکتے ہیں کہ ہر روز تین تین غوطے لگائے جائیں۔
حدیث بالا میں بخار کے لئے جو علاج تجویز کیا جا رہا ہے وہ علاج مخصوص ہے یعنی ہر بخار میں یہ علاج کار گر نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق صفراوی بخار کی بعض اقسام سے ہے جس میں اہل حجاز مبتلا ہوتے ہیں، چونکہ بعض بخار میں پانی کا استعمال نہ صرف یہ کہ مضر بلکہ باعث ہلاکت ہوتا ہے اس لئے ہر بخا میں علاج کا یہ طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہئے ہاں اگر کسی بخار میں طبیب حاذق اور معتمد معالج اجازت دے دے تو پھر اس پر بلا جھجک عمل کرنا چاہئے۔
اس سلسلہ میں خطابی رحمہ اللہ نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک شخص کسی ایسے بخار میں مبتلا ہوا جس میں پانی کا استعمال مضر تھا مگر اس نے ناسمجھی میں پانی میں غوطے لگائے جس کا اثر یہ ہوا کہ حرارت بدن میں رک گئی چنانچہ وہ اتنا بیمار ہوا کہ ہلاکت کے قریب پہنچ گیا۔ جب کسی نہ کسی طرح اچھا ہوا تو ظالم نے یہ تو نہ سمجھا کہ حدیث کے معنی نہ سمجھنے کی وجہ سے خود مصیبت میں پھنسا البتہ نفس حدیث کے بارہ میں اول قول بکنے لگا حالانکہ اگر وہ بے وقوفی اور ناسمجھی کا ثبوت نہ دیتا بلکہ یہ جانتا کہ حدیث کا یہ حکم ہر نوع کے بخار کے لئے نہیں ہے بلکہ بعض مخصوص بخار کے لئے ہے تو مصیبت میں کیوں پھنستا۔