مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ جنازوں کا بیان ۔ حدیث 63

مؤمن کامل بخار میں کیوں مبتلا ہوتا ہے؟

راوی:

وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : إن رسول الله صلى الله عليه و سلم عاد مريضا فقال : " أبشر فإن الله تعالى يقول : هي ناري أسلطها على عبدي المؤمن في الدنيا لتكون حظه من النار يوم القيامة " . رواه أحمد وابن ماجه والبيهقي في شعب الإيمان

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بیمار کی عیادت کی (جب بخار میں مبتلا تھا) اور اس سے فرمایا کہ ' 'تمہیں خوشخبری ہو! کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بخار میری آگ ہے۔ جسے میں اپنے بندہ پر اس لئے مسلط کرتا ہوں تاکہ وہ (بخار) اس کے حق میں قیامت کے دن دوزخ کی آگ کا بدلہ اور حصہ ہو جائے" ۔ (احمد ، ابن ماجہ، بیہقی)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے آیت (وان منکم الا واردھا) یعنی تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو (قیامت کے دن) دوزخ میں داخل نہ ہو۔ لہٰذا بندہ مؤمن کو اس داخل ہونے کے بدلے دنیا میں بخار میں مبتلا کیا جاتا ہے اس طرح وہ بخار کی وجہ سے عذاب سے جو دوزخ میں داخل ہونے کی وجہ سے ہوتا بچا رہے گا اگرچہ داخل ہونا بایں طور سب کے لئے ہو گا کہ پل صراط دوزخ کے اوپر قائم کیا جائے اور اس کے اوپر سے سب ہی گزریں گے۔
مذکورہ بالا تشریح کے پیش نظر حدیث میں لفظ" مؤمن" کے ساتھ " کامل" کی قید لگا دینی چاہئے اس کا مطلب یہ ہو گا کہ حدیث کے مفہوم کا تعلق " مؤمن کامل" سے ہے۔ کیونکہ بعض گناہگار مؤمن بھی آتش دوزخ کے عذاب میں مبتلا کئے جائیں گے اس طرح وہ مؤمن جو اپنے گناہوں کی وجہ سے دوزخ کے عذاب میں مبتلا کئے جائیں گے۔ حدیث کے مفہوم و مصداق سے خارج ہو جائیں گے۔

یہ حدیث شیئر کریں