مریض کے پاس غل غپاڑہ نہ مچانا چاہئے
راوی:
وعن ابن عباس قال : من السنة تخفيف الجلوس وقلة الصخب في العيادة عند المريض قال : وقال رسول الله صلى الله عليه و سلم لما كثر لغطهم واختلافهم : " قوموا عني " رواه رزين
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ عیادت کے وقت مریض کے پاس کم بیٹھنا اور شور و غوغا نہ کرنا سنت ہے۔ نیز حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت جب کہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں شور و غوغا اور اختلاف زیادہ ہوا تو فرمایا کہ میرے پاس سے اٹھ کھڑے ہو۔ (رزین)
تشریح
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ارشاد سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ عیادت کے آداب میں سے ایک ادب یہ ہے کہ مریض کے پاس عیادت کے وقت صرف اتنا عرصہ کے لئے بیٹھنا چاہئے جس میں بیمار کی مزاج پرسی اور اس کے حالات و کیفیات کا علم ہو جائے۔ گویا اس کے پاس خواہ مخواہ کے لئے زیادہ دیر تک بیٹھ کر بیمار کے مزاج پر بوجھ نہ بننا چاہئے وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ بیمار کے پاس بیٹھ کر غل غپارہ مچانا اور شور و غوغا کرنا مکروہ ہے۔
روایت کے دوسرے جزو کی تفصیل حضرت ابن عباس ہی کی روایت کی روشنی میں جو بخاروی و مسلم میں مروی ہے یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی زندگی کے آخری ایام میں جب مرض میں مبتلا ہوئے اور وصال کا وقت قریب آیا تو اس موقع پر جب کہ آپ کے پاس بہت زیادہ لوگ جمع تھے جن میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ دوات قلم لاؤ میں تمہارے لئے ایک وصیت نامہ لکھ دیتا ہوں تاکہ تم میرے بعد گمراہی میں مبتلا نہ ہو سکو! (یہ سن کر حاضرین کو مخاطب کر کے) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ (معلوم ہوتا ہے کہ) اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر شدت مرض غالب ہے اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصیت نامہ لکھنے کے لئے فرما رہے ہیں ورنہ تو وصیت نامہ کی کیا ضرورت ہے کیونکہ تمہارے پاس قرآن موجود ہے اور کتاب اللہ تمہارے لئے کافی ہے۔ اس کے بعد اہل بیت اور دوسرے لوگوں نے بھی اپنی اپنی بات کہنی شروع کر دی کوئی تو کہتا تھا کہ قلم و دوات لا دینا چاہئے تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے لئے وصیت نامہ لکھ دیں بعض لوگ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تائید کر رہے تھے۔ غرض اس معاملہ میں جب بحث مباحثہ زیادہ بڑھا اور لوگوں کے اظہار رائے نے شور و غوغا کی صورت اختیار کر لی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم سب لوگ میرے پاس سے اٹھ کھڑے ہو۔
اس صورت واقعہ سے روافض یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وصیت نامہ میں خلافت کے بارہ میں کچھ لکھنا چاہتے تھے (مثلاً یہ کہ میرے بعد خلیفہ اول علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں ) مگر حضرت عمر نے آپ کو اس سے روک دیا۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ روافض کا یہ نتیجہ اخذ کرنا صحیح نہیں کیونکہ اس واقعہ کی حقیقت تو یہ تھی کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب وصیت نامہ لکھنے کا رادہ فرمایا اور حاضرین میں اختلاف پیدا ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل میں یہ بات آئی کہ مصلحت یہی ہے کہ کوئی وصیت نامہ نہ لکھا جائے۔ چنانچہ آپ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کہنے کی وجہ سے نہیں بلکہ خود اپنے اختیار سے صرف یہ کہ اس وقت وصیت نامہ نہیں لکھا بلکہ لکھنے کا ارادہ بھی ترک فرما دیا کیونکہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی چیز کے لکھنے کا مصمم ارادہ فرما لیا ہوتا تو حضرت عمر وغیرہ کی کیا مجال تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فیصلہ کی راہ میں رکاوٹ بنتے، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس واقعہ کے بعد تین دن تک زندہ رہے اور ان ایام میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حضرت عمر اور دوسرے صحابہ موجود نہیں تھے بلکہ اہل بیت مثلاً حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما وغیر ہما بارگاہ رسالت میں حاضر رہے اگر آپ اس موقع پر خلافت کے بارے میں کوئی وصیت نامہ لکھنے ہی میں مصلحت سمجھتے تو ضرور لکھتے۔ پھر یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خلافت کے بارہ میں ایسا طریقہ اختیار فرمایا جس میں کسی شک و شبہ اور تاویل کی گنجائش ہی نہ رہی تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آخری ایام میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نماز میں لوگوں کا امام مقرر فرمایا۔ اسی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے واسطے لوگوں کے سامنے تقریر کر تے ہوئے فرمایا کہ ۔" آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر کو ہمارے دین کے لئے امام منتخب فرمایا یعنی نماز میں ہمارا امام مقرر فرما دیا تو کیا ہم انہیں اپنی دنیا کے لئے یعنی خلافت کے لئے منتخب نہ کریں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب حضرت ابوبکر کو نماز میں لوگوں کا امام بننے کے لئے بلا بھیجا تو اس وقت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ہی بیٹھا ہوا تھا اور آپ مجھے دیکھ رہے تھے (مگر آپ نے مجھے امام مقرر نہیں فرمایا) حضرت ابوبکر ان لوگوں میں سے ہیں جن کے بارہ میں حق تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے۔ کہ آیت (لایخافون لومۃ لائم)۔ (یعنی یہ لوگ ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے)۔"
منقول ہے کہ ابوسفیان بن حرب نے (جب ایک موقع پر) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں ابوبکر سے لڑائی کے لئے مدینہ کا میدان گھوڑوں اور پیادوں سے بھر دوں (تو حضرت علی) ابوسفیان کی اس بات سے بہت ناراض ہوئے اور انہیں ڈانٹا اور بہت برا بھلا کہا تاکہ نہ صرف ابوسفیان بلکہ دوسرے لوگ بھی جان لیں کہ ابوبکر کی خلافت منشاء نبوت کے مطابق ہونے کی وجہ سے اتنی مستحکم اور حقیقی ہے کہ اس میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ نہ تو اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے بارہ میں کچھ لکھنے کا ارادہ فرمایا تھا اور نہ خود حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذہن میں یہ بات تھی کہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مقدم ہوں اور خلافت میرا حق ہے کیونکہ حضرت علی اگر حضرت ابوبکر پر فضیلت رکھتے اور خلافت پہلے ان کا حق ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی ضرور وصیت کرتے۔ چہ جائیکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی طرف کوئی اشارہ بھی نہیں فرمایا جب کہ حضرت ابوبکر کو نماز میں لوگوں کا امام مقرر فرما کر اس طرف کھلا ہوا اشارہ فرما دیا تھا کہ میرے بعد ابوبکر ہی خلیفہ ہونگے۔