مومن اور کافر کی روح قبض ہونے کا بیان
راوی:
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إذا حضر المؤمن أتت ملائكة الرحمة بحريرة بيضاء فيقولون : اخرجي راضية مرضيا عنك إلى روح الله وريحان ورب غير غضبان فتخرج كأطيب ريح المسك حتى إنه ليناوله بعضهم بعضا حتى يأتوا به أبواب السماء فيقولون : ما أطيب هذه الريح التي جاءتكم من الأرض فيأتون به أرواح المؤمنين فلهم أشد فرحا به من أحدكم بغائبه يقدم عليه فيسألونه : ماذا فعل فلان ماذا فعل فلان ؟ فيقولون : دعوه فإنه كان في غم الدنيا . فيقول : قد مات أما أتاكم ؟ فيقولون : قد ذهب به إلى أمه الهاوية . وإن الكافر إذا احتضر أتته ملائكة العذاب بمسح فيقولون : اخرجي ساخطة مسخوطا عليك إلى عذاب الله عز و جل . فتخرج كأنتن ريح جيفة حتى يأتون به باب الأرض فيقولون : ما أنتن هذه الريح حتى يأتون به أرواح الكفار " . رواه أحمد والنسائي
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ علیہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " جب مومن کی موت کا وقت آتا ہے تو رحمت کے فرشتے سفید ریشمی کپڑا لے کر آتے ہیں اور روح سے کہتے ہیں کہ تو (جسد سے ) نکل اس حال میں کہ تو اللہ تعالیٰ سے راضی ہے اور اللہ تعالیٰ تم سے خوش ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت و مہربانی، بہترین رزق اور پروردگار کی طرف کہ جو تجھ پر غضبناک نہیں ہے چل، چنانچہ روح مشک کی بہترین خوشبو کی طرح (جسم سے) نکلتی ہے اور فرشتے اس کو (از راہ تعظیم و تکریم) ہاتھوں ہاتھ لے چلتے ہیں یہاں تک کہ اسے لے کر آسمان کے دروازں تک آتے ہیں، وہاں فرشتے آپس میں کہتے ہیں کہ کیا خوب ہے یہ خوشبو جو تمہارے پاس زمین سے آ رہی ہے۔ پھر اسے ارواح مومنین کے پاس علیین میں یا جنت میں یا جنت کے دروازہ پر اور یا عرش کے نیچے کہ جہاں مومنین کی روحیں اپنے اپنے حسب مراتب و درجات رہتی ہیں۔ چانچہ وہ روحیں اس روح کے آنے سے اسی طرح خوش ہوتی ہیں جس طرح تم میں سے کوئی شخص اس وقت خوش ہوتا ہے جب کہ اس کے پاس اس کا غائب آتا ہے یعنی تم میں سے کوئی شخص جب سفر سے واپس آتا ہے تو جس طرح اس کے اہل و عیال اس کی واپسی پر خوش ہوتے ہیں اس طرح آسمان میں مومنین کی روحیں اس وقت بہت زیادہ خوش ہوتی ہیں جب کہ کسی مومن کی روح زمین سے ان کے پاس آتی ہے، پھر تمام روحین اس روح سے پوچھتیں ہیں کہ فلاں کیا کرتا ہے اور فلاں کیا کرتا ہے؟ یعنی روحیں ان متعارفین کے بارہ میں جنہیں وہ دنیا میں چھوڑ کر آئی تھیں نام بنام پوچھتی ہیں کہ فلاں فلاں شخص کا کیا حال ہے مگر پھر روحیں (خود) آپ میں کہتی ہیں کہ اس روح کو چھوڑ دو (ابھی کچھ نہ پوچھو کیونکہ) یہ دنیا کے غم و آلام میں تھی (جب اسے ذرہ سکون مل جائے تو پوچھنا) چنانچہ روح (جب سکون پالیتی ہے تو خود کہتی ہے) کہ فلاں شخص (جو بدکار تھا ور جس کے بارہ میں تم پوچھ رہے ہو) مر گیا، کیا وہ تمہارے پاس نہیں آیا؟ چنانچہ وہ روحیں اسے بتاتی ہیں کہ وہ تو دوزخ کی آگ کی طرف لئے گئے۔ اور جب کافر کی موت کا وقت آتا ہے تو عذاب کے فرشتے اس کے پاس ٹاٹ کا فرش لے کر آتے ہیں اور اس کی روح سے کہتے ہیں کہ اے روح (کافر کے جسم سے) مردار کی بدبو کی طرح نکلتی ہے پھر فرشتے اسے آسمان کے دروازوں کی طرف لاتے ہیں وہاں فرشتے کہتے ہیں کہ" کتنی بری ہے یہ بدبو! پھر اس کے بعد اسے کافروں کی ارواح کے پاس لے جایا جاتا ہے۔ (احمد نسائی)
تشریح
مومن کی موت کے وقت رحمت کے فرشتے ریشم کا ٹکڑا غالباً اس لئے لاتے ہیں تاکہ اس کی روح کو اس میں لپیٹ کر لے جائیں۔ ماذا فعل فلان (فلاں کیا کرتا ہے) یعنی مومنین کی ارواح آنے والی روح مومن سے ان لوگوں کے بارہ میں کہ جنہیں وہ دنیا میں جانتی تھیں اور دنیا میں چھوڑ کر آئی تھیں پوچھتی ہیں کہ فلاں فلاں شخص کس حال میں ہیں؟ اور اس دریافت حال سے ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر یہ معلوم ہو کہ ان کی زندگی اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری میں گزر رہی ہے تو خوش ہوں اور راہ حق پر ان کی استقامت کے لئے دعا کریں اور اگر کسی کے بارہ میں انہیں یہ معلوم ہو کہ اس کی زندگی گناہ و معصیت کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے تو رنج و غم کریں اور اللہ سے ان کی ہدایت اور ان کی مغفرت و تحسین کی دعا مانگیں۔
حتی یأتون بہ الی باب الارض (پھر فرشتے اسے زمین کے دروازوں کی طرف لاتے ہیں) کے بارہ میں علامہ طیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ " زمین کے دروازوں سے مراد آسمان زمین (یعنی پہلے آسمان) کے دروازے ہیں جیسا کہ گزشتہ حدیث نمبر١٢ کے الفاظ ثم یعرج بہا الی السماء دلالت کرتے ہیں۔ نیز یہ بھی احتمال ہے کہ " زمین کے دروازوں" سے مراد زمین ہو۔ اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہے ہو گا کہ کافر کی روح اسفل السافلین کی طرف پھینک دی جاتی ہے۔ ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک بھی دوسری صورت بہتر اور صحیح معلوم ہوتی ہے۔
" کافروں کی ارواح کے پاس لے جایا جاتا ہے" کا مطلب یہ ہے کہ اسے کافروں کی ارواح کے پاس کہ جن کا مسکن سجین ہے پہنچا دیا جاتا ہے۔ سجین جہنم کی گہرائیوں میں ایک جگہ کا نام ہے۔