عالم برزخ میں مومن کی روح
راوی:
وعن عبد الرحمن بن كعب عن أبيه قال : أنه كان يحدث أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " إنا نسمة المؤمن طير طير تعلق في شجر الجنة حتى يرجعه الله في جسده يوم يبعثه " . رواه مالك والنسائي والبيهقي في كتاب البعث والنشور
حضرت عبدالرحمن اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہیں کہ وہ (یعنی عبدالرحمن کے والد حضرت کعب) رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی بیان کرتے تھے کہ " عالم برزخ میں مومن کی روح پرندہ کے قالب میں جنت کے درختوں سے میوے کھاتی رہتی ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس دن کہ جب اسے اٹھائے گا (یعنی قیامت کے دن) اسے اس کے بدن میں واپس بھیج دے گا " ۔ (مالک، نسائی، بیہقی)
تشریح
اگر یہ اشکال پیدا ہو کہ جب انسان کی روح کو جانور کا بدن ملا تو اس کا مرتبہ گھٹ گیا کیونکہ اس صورت میں وہ انسان سے جانور ہو گیا اور قلب حقیقت لازم آیا؟ تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ روح مومن کو پرندہ کے جسم کے ساتھ ایسا تعلق نہیں ہوتا جیسا کہ اپنے حقیقی جسم کے ساتھ روح کا تعلق ہوتا ہے اور اس پر اپنا تصرف کرتی ہے بلکہ یہ تعلق ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی قیمتی چیز مثلاً لعل یا جواہر کو اس کی حفاظت اور احتیاط کی خاطر صندوق میں رکھ دیا جائے۔ لہٰذا روح مومن کو پرندہ کے قالب میں کر دینے سے نہ تو اس کے رتبہ میں کمی ہوتی ہے اور نہ قلب حقیقت لازم آتا ہے بلکہ اس طرح اس کی تعظیم و تکریم ہی ہوتی ہے۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ حدیث میں روح مومن کے بارہ میں جو کیفیت بیان فرمائی گئی ہے اس کا تعلق شہداء کے ساتھ ہے جب کہ دوسرے بعض علماء کا یہ قول ہے کہ اس کا تعلق عام مومنین سے ہے جیسا کہ حدیث کے ظاہری مفہوم سے بھی ثابت ہوتا ہے۔