مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ میت کو نہلانے اور کفنانے کا بیان ۔ حدیث 118

قیامت میں مردہ کس حال میں اٹھے گا؟

راوی:

وعن أبي سعيد الخدري أنه لما حضره الموت . دعا بثياب جدد فلبسها ثم قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " الميت يبعث في ثيابه التي يموت فيها " . رواه أبو داود

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں منقول ہے کہ جب ان کی موت کا وقت قریب آیا تو انہوں نے نئے کپڑے منگوائے اور انہیں زیب تن کیا پھر فرمایا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مردہ انہیں کپڑوں میں اٹھایا جاتا ہے جن میں وہ مرتا ہے۔ ( ابوداؤد )

تشریح
حدیث کے ظاہری مفہوم سے یہ معلوم ہوا کہ حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد گرامی پر عمل کرنے کے لئے نئے کپڑے منگوائے اور انہیں زیب تن کیا۔ بظاہر حدیث کی مراد یہ ہوئی کہ قیامت میں جب مردوں کو دوبارہ زندگی بخشی جائے گی اور وہ اٹھ کر میدان حشر میں آئیں گے تو اس وقت ان کے بدن پر کپڑا ہو گا۔
ظاہر ہے کہ اگر یہی مفہوم حدیث کا مراد ہے تو مسئلہ بڑا نازک ہو جاتا ہے کیونکہ صحیح حدیث کے ذریعہ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ قیامت کے روز لوگ ننگے بدن اور ننگے پاؤں اٹھیں گے۔
اس لئے علماء نے اس حدیث کے معنی یہ لکھے ہیں کہ حدیث میں کپڑوں سے مراد وہ اعمال ہیں جن پر زندگی ختم ہوتی ہے چنانچہ ایسا ہوتا ہے کہ اہل عرب کبھی کبھی لفظ ثیاب (یعنی کپڑے) بولتے ہں اور اس سے اعمال مراد لیتے ہیں۔ کیونکہ جس طرح کپڑے بدن سے لگے رہتے ہیں اسی طرح اعمال بھی بدن سے متعلق ہوتے ہیں یہی وجہ کہ آیت کریمہ (وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ) 74۔ المدثر : 4) کی تاویل بعض مفسرین نے یہ کی ہے کہ اپنے اعمال صحیح کرو۔
حضرت ابوسعید نے اس وقت جب کہ وہ دنیا سے رخصت ہو رہے تھے محض صفائی و ستھرائی اور پاکیزگی کے لئے نئے کپڑے زیب تن کئے ۔ اتفاقاً یہ حدیث بھی ان کے ذہن میں آ گئی جسے انہوں نے بیان کیا نہ یہ کہ حضرت ابوسعید نے اس نئے کپڑے پہننے کی دلیل کے طور پر یہ حدیث بیان کی تھی۔
اس ارشاد گرامی کی مراد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جن کپڑوں میں موت واقع ہو گی وہ اپنی قبر سے تو انہیں کپڑوں میں اٹھے گا میدان حشر میں برہنہ حالت میں پہنچے گا۔

یہ حدیث شیئر کریں