مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ جنازہ کے ساتھ چلنے اور نماز جنازہ کا بیان ۔ حدیث 145

تدفین کے بعد قبر پر نماز جنازہ

راوی:

وعن أبي هريرة أن امرأة سوداء كانت تقم المسجد أو شاب ففقدها رسول الله صلى الله عليه و سلم فسأل عنها أو عنه فقالوا : مات . قال : " أفلا كنتم آذنتموني ؟ " قال : فكأنهم صغروا أمرها أو أمره . فقال : " دلوني على قبره " فدلوه فصلى عليها . قال : " إن هذه القبور مملوءة ظلمة على أهلها وإن الله ينورها لهم بصلاتي عليهم " . ولفظه لمسلم

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک کالی عورت تھی جو مسجد (نبوی ) میں جھاڑو دیا کرتی تھی یا راوی کہتے ہیں کہ ایک جوان مرد تھا جو جھاڑو دیا کرتا تھا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن اسے غائب پایا تو اس عورت، یا مرد کے بارہ میں دریافت فرمایا کہ وہ کہاں ہے؟ بتایا گیا کہ وہ مرگئی یا وہ مرگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے کیوں نہیں بتایا گیا ؟ تاکہ میں بھی اس کی نماز جنازہ پڑھتا، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے اس عورت یا اس مرد کی موت کوئی اہمیت نہیں دی (کہ جس کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف دی جاتی گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم مقصود تھی) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا مجھے اس کی قبر بتادو کہ کہاں ہے؟ آپ کو جب اس کی قبر بتائی گئی تو (آپ وہاں تشریف لے گئے اور) اس کی قبر پر نماز پڑھی اور پھر فرمایا کہ " یہ قبریں اپنے مردوں کے لئے تاریکیوں سے بھری ہوئی ہوتی ہیں ان قبروں پر میرے نماز پڑھنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں روشن کردیتا ہے (اس روایت کو بخاری ومسلم نے نقل کیا ہے اور الفاظ مسلم کے ہیں۔

تشریح :
" ایک کالی عورت تھی یا ایک جوان مرد تھا " یہ درحقیقت راوی کا شک ہے کہ صحیح طریقہ سے یہ بات یاد نہیں رہی کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ فرمایا تھا کہ ایک کالی عورت تھی جو مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی یا یہ فرمایا کہ ایک جوان مرد تھا جو جھاڑو دیا کرتا تھا۔
" تاریکیوں سے بھری ہوئی قبروں" سے مراد صرف وہ قبریں ہیں جن پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نماز پڑھنا ممکن تھا۔
اس مسئلہ میں کہ قبروں پر نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ علماء کا اختلاف ہے چنانچہ جمہور علماء کا فیصلہ تو یہ ہے کہ قبر پر نماز جنازہ پڑھنا مشروع ہے خواہ پہلے اس کی نماز جنازہ ادا کی جا چکی ہو یا نہ ادا کی گئی ہو۔
ابراہیم نخعی، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام رحمہم اللہ کا قول یہ ہے کہ اگر پہلے نماز جنازہ ادا کی جا چکی ہے تو اب قبر پر نماز درست نہیں اور اگر پہلے نماز جنازہ ادا نہ کی گئی ہو تو پھر جائز ہے لیکن حضرت امام ابوحنیفہ کی شرط یہ بھی ہے کہ اگر مردہ اپنی قبر میں پھٹ نہ گیا ہو تو نماز درست ہوگی ورنہ تو قبر میں مردہ کے پھٹ جانے کی صورت میں نماز درست نہیں ہوگی۔ قبر میں مردہ کے پھٹ جانے کا اندازہ بعض حضرات نے تین دن متعین کیا ہے یعنی اگر تدفین کو تین دن نہ گزرے ہوں تو سمجھا جائے گا کہ مردہ اپنی قبر میں ابھی پھٹا نہیں ہے اور اگر تدفین کو تین دن یا تین دن سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہو تو سمجھ لینا چاہئے کہ مردہ اپنی قبر میں پھٹ گیا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں