مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ مردہ کو دفن کرنے کا بیان ۔ حدیث 187

دفن کے بعد قبر کھودنے کا مسئلہ

راوی:

میت کو دفن کرنے اور قبر پر مٹی ڈالنے کے بعد (میت کو نکالنے کے لئے یا کسی اور مقصد کے تحت) قبر کو کھودنا جائز نہیں ہے خواہ دفن کئے ہوئے بہت تھوڑا وقفہ ہوا ہو یا زیادہ عرصہ ہو گیا ہو ہاں عذر کی بنا پر جائز ہو گا مثلاً یہ اگر دفن کرنے کے بعد یہ ظاہر ہو کہ جس زمین پر قبر بنائی گئی ہے وہ زمین غصب کی ہے یا اس زمین کو کسی شخص نے بحق شفعہ لے کر اپنی ملکیت بنا لی تو ان صورتوں میں مالک زمین کے مطالبہ پر قبر کھودنا جائز ہو گا علماء لکھتے ہیں کہ کتنے ہی صحابی کافروں کے شہروں میں دفن کئے گئے مگر انہیں وہاں سے منتقل نہیں کیا گیا۔ اگر اس زمین کا مالک کہ جس میں قبر بنائی گئی ہے یہ چاہے کہ زمین کو ہموار کر لے اور اس میں کھیتی باڑی کرے تو اسے حق پہنچتا ہے دفن کرنے کے بعد قبر کھودنے کا اعذار میں ایک عذر یہ بھی ہے کہ اگر کسی شخص کا کوئی مال یا کپڑا وغیرہ قبر میں رہ جائے تو اس کے لئے جائز ہے کہ قبر کھود کر وہ مال یا کپڑا نکال دیں۔
علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ علماء اور مشائخ اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کسی عورت کا بیٹا شہر کے علاوہ کسی دوسرے شہر میں دفن کر دیا جائے اور وہاں وہ عورت موجود نہ رہی ہو اور پھر اسے اس کی مامتا بے چین کرے اور وہ اس بات پر اصرار کرے کہ اس کے بیٹے کی نعش اس کے شہر میں منتقل کر دی جائے تو اس صورت میں قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ نعش کو منتقل کر دیا جائے چنانچہ اس بارہ میں بعد کے بعض علماء جس جواز کے قائل ہوئے ہیں اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
صاحب ہدایہ نے (ہدایہ کے علاوہ اپنی کسی دوسری کتاب میں) لکھا ہے کہ " اگر کوئی شخص کسی شہر میں مر جائے تو اس کی نعش کو دوسرے شہر منتقل کرنا مکروہ ہے کیونکہ اس طرح نہ صرف یہ کہ ایک بے فائدہ اور لاحاصل چیز میں وقت صرف ہوتا ہے بلکہ میت کو دفن کرنے میں بھی تاخیر ہوتی ہے، نیز علماء کا بالاتفاق یہ فیصلہ ہے کہ اگر کوئی میت بغیر نماز کے بھی دفن کر دی جائے تب بھی اس قہر سے نکالنا جائز نہیں ہے۔
کسی شخص کو اس مکان میں دفن نہ کیا جائے جس میں وہ رہا کرتا تھا کیونکہ یہ صرف انبیاء کرام صلوات اللہ وسلم علیہم کے ساتھ مختص ہے دوسرے کے لئے ایسا کرنا مناسب نہیں ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں