مصیبت زدہ کو تسلی دینے والے کا ثواب
راوی:
وعن عبد الله بن مسعود قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من عزى مصابا فله مثل أجره " . رواه الترمذي وابن ماجه وقال الترمذي : هذا حديث غريب لا نعرفه مرفوعا إلا من حديث علي بن عاصم الراوي وقال : ورواه بعضهم عن محمد بن سوقة بهذا الإسناد موقوفا
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی مصیبت زدہ کو تسلی دیتا ہے تو اسے بھی مصیبت زدہ کے بقدر ثواب دیا جاتا ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ) ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے ہم اس روایت کو علی بن عاصم کے علاوہ کسی دوسرے ذریعہ سے مرفوع نہیں پاتے نیز امام ترمذی یہ بھی فرماتے ہیں کہ بعض محدثین نے اس روایت کو محمد بن سوقہ سے اسی سند کے ساتھ ابن مسعود پر موقوف نقل کیا ہے۔
تشریح
مصیبت زدہ ، عام ہے خواہ کسی کے انتقال کی مصیبت میں مبتلا ہو یا اس کے علاوہ کسی دوسرے حادثہ یا مصیبت سے دوچار ہو بہرحال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ایسے شخص کو اطمینان و سکون دلاتا ہے اور اسے تسلی و تشفی دیتا ہے جو اپنے کسی عزیز و اقا رب کے انتقال پر یا کسی بھی مصیبت کی وجہ سے غم زدہ ہو تو اسے بھی اتنا ہی ثواب ملتا ہے جتنا کہ اس مصیبت زدہ کو صبر کرنے سے ملتا ہے کیونکہ تسلی دینے والا جب مصیبت زدہ کو اطمینان و سکون دلاتا ہے بایں طور کہ اسے صبر کی تلقین کرتا ہے اور پھر وہ شخص صبر کرتا ہے تو گویا یہ شخص مصیب زدہ کے صبر کا باعث بنتا ہے اس لئے الدال علی الخیر کفا علہ یعنی جو شخص اچھی بات کا راستہ بتاتا ہے اسے بھی اس راستہ پر چلنے والے کی مانند ثواب ملتا ہے کے بمصداق اسے بھی اجر و سعادت سے نوازا جاتا ہے ۔ اب اس بارہ میں عمومیت ہے کہ چاہے تو تسلی خود مصیبت زدہ کے پاس پہنچ کر دی جائے یا اگر اس پر قدرت نہ ہو تو پھر خط لکھ کر یا کسی بھی دوسرے ذریعہ سے اطمینان وسکون دلایا جائے دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔
حضرت امام ترمذی کے قول کے مطابق اگرچہ یہ روایت ابن مسعود پر موقوف ہے لیکن مرفوع ہی کے حکم میں ہے پھر یہ کہ اس کو ابن ماجہ کی اس روایت سے تقویت ملتی ہے جس کی سند حسن اور مرفوع ہے کہ ۔ حدیث (ما من مسلم یعزی اخاہ بمصیبۃ الا کساہ اللہ من حلل الکرامۃ یوم القیامۃ)۔ جو بھی مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی کی مصیبت میں اسے صبر و سکون کی تلقین کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اسے بزرگی کا خلعت پہنائے گا۔