زمانہ جاہلیت کی ایک رسم اور اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تنبیہ
راوی:
وعن عمران بن حصين وأبي برزة قالا : خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه و سلم في جنازة فرأى قوما قد طرحوا أرديتهم يمشون في قمص فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أبفعل الجاهلية تأخذون ؟ أو بصنيع الجاهلية تشبهون ؟ لقد هممت أن أدعو عليكم دعوة ترجعون في غير صوركم " قال : فأخذوا أرديتهم ولم يعودوا لذلك . رواه ابن ماجه
حضرت عمران بن حصین اور حضرت ابوبرزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں روایت کرتے ہیں کہ (ایک روز) ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ ایک جنازے کے ساتھ چلے (چنانچہ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ ایسے لوگوں کو دیکھا جنہوں نے اپنی چادریں اتار پھینکی تھیں اور کرتوں میں چل رہے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (انہیں اس حال میں دیکھ کر) فرمایا کہ کیا تم لوگ جاہلیت کے فعل پر عمل کرتے ہو؟ یا جاہلیت کے کاموں کی مشابہت اختیار کرتے ہو؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا! (تمہاری یہ انتہائی نازیبا حرکت دیکھ کر ) میرا تو ارادہ یہ ہوا کہ میں تمہارے لئے کوئی ایسی بد دعا کروں کہ تم اپنے گھروں کو دوسری شکلوں میں (یعنی بندر یا سور کی شکل ہو کر ) واپس پہنچو۔ راوی کہتے ہیں کہ (یہ سن کر ) ان لوگوں نے (فورا) اپنی چادریں اوڑھ لیں اور پھر دوبارہ کبھی ایسا کام نہ کیا۔ (ابن ماجہ)
تشریح
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اس زمانہ میں یہ دستور تھا کہ لوگ کرتوں کے اوپر چادریں اوڑھا کرتے تھے
بہرحال زمانہ جاہلیت کی یہ ایک رسم تھی کہ جب لوگ جنازہ کے ساتھ چلتے تو اپنی چادریں اتار دیا کرتے تھے گویا اس سے پریشان حال کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔
علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ جب اتنے ذرا سے تغیر یعنی چادر اتار کر چلنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اتنی شدید تنبیہ اور وعید فرمائی تو ان لوگوں کا کیا حشر ہو گا جو اس سے کہیں زیادہ بڑی رسموں کو اختیار کئے ہوئے ہیں؟