کانوں کی زکوۃ کا مسئلہ
راوی:
وعن ربيعة بن أبي عبد الرحمن عن غير واحد : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم أقطع لبلال بن الحارث المزني معادن القبلية وهي من ناحية الفرع فتلك المعادن لا تؤخذ منها إلا الزكاة إلى اليوم . رواه أبو داود
حضرت ربیعہ بن ابی عبدالرحمن (تابعی) بہت سے صحابہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال بن حارث منزی کو نواح فرع میں قبل کی کانیں بطور جاگیر عطا فرما دیں تھیں چنانچہ ان کانوں میں سے اب تک صرف زکوۃ لی جاتی ہے ۔ (ابو داؤد)
تشریح
قبلیہ قبل کی طرف منسوب ہے جو نواح فرع میں ایک جگہ کا نام ہے اور فرع مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک علاقہ ہے قبل میں جو کانیں تھیں انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عطا فرما دی تھیں تاکہ وہ ان کانوں میں سے جو کچھ برآمد کریں اس سے اپنی گزر بسر کا کام چلائیں۔
حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ ان کانوں میں سے زکوۃ یعنی چالیسواں حصہ لیا جاتا ہے گویا کہ خمس نہیں لیا جاتا جیسا کہ کانوں کے متعلق حکم ہے، چنانچہ حضرت امام مالک اور ایک قول کے مطابق حضرت امام شافعی کا مسلک یہی ہے کہ کانوں میں بھی چالیسواں حصہ واجب نہیں ہوتا حضرت امام شافعی کا بھی ایک قول یہی ہے۔ حضرت امام شافعی کا ایک تیسرا قول یہ بھی ہے کہ اگر کان سے برآمد ہونے والی چیز بڑی محنت اور مشقت کے نتیجے میں حاصل ہو تو چالیسواں حصہ واجب ہو گا ورنہ بصورت دیگر خمس ہی واجب ہو گا۔
بہرحال حدیث چونکہ حنفیہ کے مسلک کے خلاف ہے اس لئے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حدیث کے مفہوم سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ ان کانوں میں سے خمس کے بجائے چالیسواں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی حکم کے مطابق لیا جاتا ہو بلکہ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ اس وقت کے حکام کے اپنے ذاتی اجتہاد سے ان کانوں میں سے بجائے خمس کے چالیسواں حصہ نکالنا ضروری قرار دیا ہو گا اور ظاہر ہے کہ ہمارے مسلک کی بنیاد کتاب اللہ ، سنت صحیحہ اور قیاس پر ہے ملا علی قاری نے مرقات میں اس بات کو بڑی تفصیل کے ساتھ پیش کیا ہے اہل علم اس کتاب سے مراجعت کر سکتے ہیں۔