مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ جن لوگوں کو زکوۃ کا مال لینا اور کھانا حلال نہیں ہے ان کا بیان ۔ حدیث 329

تندرست وتوانا کو زکوۃ کا مال لینا مناسب نہیں

راوی:

وعن عبيد الله بن عدي بن الخيار قال : أخبرني رجلان أنهما أتيا النبي صلى الله عليه و سلم وهو في حجة الوداع وهو يقسم الصدقة فسألاه منها فرفع فينا النظر وخفضه فرآنا جلدين فقال : " إن شئتما أعطيتكما ولا حظ فيها لغني ولا لقوي مكتسب " . رواه أبو داود والنسائي

حضرت عبیداللہ بن عدی بن خیار کہتے ہیں کہ مجھے دو آدمیوں نے بتایا کہ وہ دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر لوگوں کو زکوۃ کا مال تقسیم فرما رہے تھے ان دونوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اس مال میں سے کچھ لینے کی خواہش کا اظہار کیا، وہ دونوں کہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہماری خواہش و طلب کو دیکھ کر ہم پر سر سے پاؤں تک نظر دوڑائی اور ہمیں تندرست و توانا دیکھ کر فرمایا کہ اگر تم لینا ہی چاہتے ہو تو میں تمہیں دے دوں لیکن یاد رکھو کہ صدقات و زکوۃ کے اس مال میں سے نہ تو غنی کا کوئی حصہ اور نہ اس شخص کا جو تندرست و توانا ہو اور کمانے پر قادر ہو۔ (ابو داؤد، نسائی)

تشریح
حجتہ الوداع آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آخری حج کو کہتے ہیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احکام الٰہی کی وضاحت فرمائی اور لوگوں کو وداع کہا اور پھر اس کے چند مہینوں بعد ہی رفیق اعلیٰ سے جا ملے۔
حضرت امام شافعی کے مسلک کے مطابق حدیث کے آخری جملوں کا مطلب یہ ہو گا کہ تم لوگوں کے لئے صدقہ کا مال کھانا حرام ہے لیکن اگر تم حرام مال کھانا ہی چاہتے ہو تو میں تمہیں دے دیتا ہوں، گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زجر توبیخ کے طور پر اس طرح ارشاد فرمایا۔
حنفیہ کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اگر تم اس مال میں سے لینا چاہتے ہو تو میں تمہیں دے دیتا ہوں لیکن یہ سمجھ کہ جو شخص تندرست و توانا ہو اور کمانے پر قدرت رکھتا ہو اس کے لئے صدقہ کا مال کھانا کچھ زیب نہیں دیتا۔

یہ حدیث شیئر کریں