مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ خرچ کرنے کی فضیلت اور بخل کی کراہت کا بیان ۔ حدیث 375

خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی برکت

راوی:

وعن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " بينا رجل بفلاة من الأرض فسمع صوتا في سحابة اسق حديقة فلان فتنحى ذلك السحاب فأفرغ ماءه في حرة فإذا شرجة من تلك الشراج قد استوعبت ذلك الماء كله فتتبع الماء فإذا رجل قائم في حديقته يحول الماء بمسحاته فقال له يا عبد الله ما اسمك فقال له يا عبد الله لم تسألني عن اسمي فقال إني سمعت صوتا في السحاب الذي هذا ماؤه يقول اسق حديقة فلان لاسمك فما تصنع فيها قال أما إذ قلت هذا فإني أنظر إلى ما يخرج منها فأتصدق بثلثه وآكل أنا وعيالي ثلثا وأرد فيها ثلثه " . رواه مسلم

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک شخص زمین کے ایک حصے جنگل میں کھڑا تھا کہ اس نے ابر میں سے ایک آواز سنی کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے کہ فلاں شخص کے باغ کو سیراب کر پھر وہ ابر ایک طرف چلا اور ایک جگہ پتھریلی زمین پر پانی برسانے لگا۔ اور وہ تمام پانی ان نالیوں میں سے کہ جو اس زمین میں تھیں ایک نالی میں جمع ہونے لگا پھر وہ پانی اس نالی کے ذریعے ایک طرف بہنے لگا تو وہ شخص بھی اس پانی کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ تاکہ یہ دیکھے کہ جس شخص کے باغ میں یہ پانی جا رہا ہے وہ کون ہے؟ ناگہاں اس شخص نے ایک آدمی کو دیکھا جو اپنے کھیت میں کھڑا بیلچہ کے ذریعے اس پانی کو باغ کے درختوں میں پھیلا رہا تھا اس شخص نے باغ والے سے پوچھا کہ اے اللہ کے بندے تمہارا کیا نام ہے؟ ؟ اس نے کہا کہ میرا فلاں نام ہے اور اس نے وہی نام بتایا جو اس ابر میں سے سنا تھا۔ پھر باغ والے نے اس شخص سے پوچھا کہ بندہ اللہ تم میرا نام کیوں پوچھ رہے ہو؟ اس شخص نے کہا کہ میں اس لئے پوچھ رہا ہوں جس ابر کا یہ پانی ہے اس ابر میں میں نے ایک آواز سنی کہ کوئی کہنے والا اس ابر سے یہ کہہ رہا تھا کہ فلاں شخص کے باغ کو سیراب کر اور وہ نام تمہارا ہی تھا اور اب مجھے یہ بتاؤ کہ تم اس باغ میں کیا بھلائی کرتے ہو جس کی وجہ سے تم اس فضیلت اور بزرگی سے نوازے گئے ہو باغ والے نے کہا کہ چونکہ اس وقت تم پوچھ رہے ہو اس لئے میں بھی تم سے بتائے دیتا ہوں کہ اس باغ کی جو کچھ پیدا وار ہوتی ہے پہلے میں اسے دیکھتا ہوں پھر اس میں سے ایک تہائی تو اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتا ہوں۔ ایک تہائی میں اور میرے اہل و عیال کھاتے ہیں اور ایک تہائی اسی باغ میں لگا دیتا ہوں۔ (مسلم)

تشریح
اگرچہ ابر کی آواز نے باغ والے کا نام صراحۃ لیا تھا جیسا کہ بعد میں ذکر بھی کیا گیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ قصہ سناتے ہوئے ابتدا میں اس کا صراحۃ نام نہیں لیا بلکہ لفظ فلاں سے اس کے نام کو کنایۃ ذکر کیا۔
اسی طرح ابر کی آواز سننے والے شخص نے بھی ابر میں باغ والے کا نام صراحۃ سنا تھا مگر پھر اس نے باغ والے سے اس کا نام اس لئے پوچھا تاکہ اسے یقین ہو جائے کہ واقعی یہ وہی شخص ہے جس کا نام ابر کی آواز نے لیا تھا۔ نیز جب باغ والے نے اس سے اپنا نام دریافت کرنے کا سبب پوچھا تو اس ابر کی آواز کی نقل کرتے ہوئے بھی اس کا نام نہیں لیا بلکہ لفظ فلاں کہا گویا اس نے ظاہر کیا کہ اگرچہ ابر کی آواز نے تمہارا نام صراحۃً لیا تھا مگر میں اس وقت تمہارے متعین نام کی بجائے لفظ فلاں ذکر کر رہا ہوں حاصل یہ کہ ہاتف غیبی نے باغ والے کا نام صراحۃً ذکر کیا تھا مگر سامع نے اس کے نام کو لفظ فلاں سے کنایۃً تعبیر کیا اور اسے بتا دیا کہ تمہارا نام میں نے سنا تھا۔ مگر اس کو لفظ فلاں سے تعبیر کیا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں