مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ رویت ہلال کا بیان ۔ حدیث 484

چاند دیکھ کر روزہ رکھنا چاہئے

راوی:

وعن أبي البختري قال : خرجنا للعمرة فلما نزلنا ببطن نخلة تراءينا الهلال . فقال بعض القوم : هو ابن ثلاث . وقال بعض القوم : هو ابن ليلتين فلقينا ابن عباس فقلنا : إنا رأينا الهلال فقال بعض القوم : هو ابن ثلاث وقال بعض القوم : هو ابن ليلتين . فقال : أي ليلة رأيتموه ؟ قلنا : ليلة كذا وكذا . فقال : إن رسول الله صلى الله عليه و سلم مده للرؤية فهو لليلة رأيتموه
وفي رواية عنه . قال : أهللنا رمضان ونحن بذات عرق فأرسلنا رجلا إلى ابن عباس يسأله فقال ابن عباس : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن الله تعالى قد أمده لرؤيته فإن أغمي عليكم فأكملوا العدة " . رواه مسلم

حضرت ابوالبختری کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ عمرہ کرنے کی غرض سے اپنے شہر کوفہ سے نکلے جب ہم لوگ بطن نخلہ میں جو مکہ اور طائف کے درمیان ایک مقام ہے ٹھہرے تو چاند دیکھنے کے لئے ایک جگہ جمع ہوئے چاند دیکھنے کے بعد بعض لوگوں نے کہا کہ یہ چاند تیسری شب کا ہے اور دوسرے بعض لوگوں نے کہا کہ دوسری شب کا ہے اس کے بعد جب ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ہماری ملاقات ہوئی تو ہم نے اس سے لوگوں کا بیان عرض کیا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ تم نے چاند کس رات دیکھا تھا؟ ہم نے کہا کہ ایسی اور ایسی رات (یعنی مثلا پیر یا منگل کی رات) میں دیکھا تھا ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان کی مدت کو چاند دیکھنے پر موقوف کیا ہے (یعنی جب چاند دیکھا جائے گا تو رمضان کی ابتداء ہو گی) لہٰذا چاند اسی رات کا ہے کہ جس رات میں تم نے اسے دیکھا ہے۔ ابوالبختری ہی کی ایک روایت یوں ہے کہ ہم نے ذات عرق میں کہ جو مذکورہ بالا بطن نخلہ کے قریب ایک مقام ہے چاند دیکھا، چنانچہ ہم نے ایک شخص کو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی خدمت میں ان سے یہ پوچھنے کے لئے بھیجا کہ یہ چاند کس رات کا ہے؟ کیونکہ ہمارے درمیان مذکورہ بالا اختلاف پیدا ہو گیا تھا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شعبان کی مدت کو رمضان کا چاند دیکھنے کے وقت تک دراز کیا ہے۔ لہٰذا اگر انتیس تاریخ کو مطلع ابر آلود ہو تو گنتی پوری کرو۔ (یعنی شعبان کے تیس دن پورے کرو) اور اس کے بعد روزہ رکھو۔ (مسلم)

تشریح
حاصل یہ ہے کہ رمضان کا مدار چاند دیکھنے پر ہے چاند کے بڑا ہونے کا کوئی اعتبار نہیں ہے بلکہ منقول ہے کہ چاند رات میں چاند کا بڑا ہونا قرب قیامت کی علامت ہے۔ یہاں جو روایتیں نقل کی گئی ہیں۔ وہ اگرچہ بظاہر مختلف معلوم ہوتی ہیں مگر درحقیقت اس احتمال کے پیش نظر ان میں کوئی منافات نہیں ہے کہ ان لوگوں نے ذات عرق میں جمع ہو کر چاند دیکھا ہو پھر ان میں اختلاف پیدا ہونے کی صورت میں ایک آدمی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی خدمت میں بھیجا گیا ہو۔ انہوں نے اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد نقل فرما دیا پھر جب سب لوگ بطن نخلہ میں پہنچے تو اس بارے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے بالمشافہ سوال کیا چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد گرامی کی روشنی میں مذکورہ بالا جواب دیا ، چاند دیکھنے کے بارے میں کچھ مسائل ذہن نشین کر لیجئے۔
اگر شعبان کی تیس تاریخ کو دن میں زوال سے پہلے یا زوال کے بعد چاند نظر آئے تو وہ شب آئندہ کا چاند سمجھا جائے گا لہٰذا اس دن نہ رمضان کی ابتداء کا حکم دیا جائے گا۔ اور نہ اس دن روزہ رکھنے کے لئے کہا جائے گا اسی طرح اگر رمضان کی تیس تاریخ کو چاند نظر آئے تو نہ اس دن روزہ افطار کیا جائے گا اور نہ اس دن کو یوم عید قرار دیا جائے گا۔ شعبان کی تیسویں شب یعنی انتیس تاریخ کو چاند تلاش کرنا واجب علی الکفایہ ہے۔ اگر کسی ایک جگہ چاند کی رویت ثابت ہو جائے تو تمام جگہوں کے لوگوں کو اگلے روز روزہ رکھنا واجب ہو گا اس سلسلے میں اختلاف مطالع کا اعتبار نہ ہو گا ۔ مثلا اگر دہلی میں جمعہ کی شب میں چاند کی رویت ہو جائے اور دوسرے شہروں میں ہفتہ کی شب میں چاند دیکھا جائے تو ہفتہ کی شب میں چاند دیکھنے کا اعتبار نہیں ہو گا بلکہ تمام شہروں میں دہلی کی رویت معتبر ہو گی اور سب جگہ جمعہ کے روز سے روزہ رکھنا لازم ہو گا۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی ظاہری روایت یہی ہے اور حنفیہ کے جمہور علماء کا اسی پر اعتماد و فتویٰ ہے جب کہ امام شافع اور امام احمد کے مسلک میں اختلاف مطالع کا اعتبار ہے ان حضرات کے ہاں ایک شہر والوں کا چاند دیکھنا دوسرے شہر والوں کے لئے کافی نہیں ہے۔
جس شخص نے رمضان کا چاند دیکھا ہو اور اس کی شہادت و خبر کسی وجہ سے قابل قبول نہ ہو تو خود اس کو اپنی رویت کے مطابق روزہ رکھنا چاہیے اگر وہ خود بھی روزہ نہیں رکھے گا تو اس پر قضا لازم آئے گی۔

یہ حدیث شیئر کریں