روزہ پر روزہ رکھنے کا مسئلہ
راوی:
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : نهى رسول الله صلى الله عليه و سلم عن الوصال في الصوم . فقال له رجل : إنك تواصل يا رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : وأيكم مثلي إني أبيت يطعمني ربي ويسقيني "
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ پر روزہ پر رکھنے سے منع فرمایا تو ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو روزہ پر روزہ رکھتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ تم میں سے کون شخص میری طرح ہے، میں تو اس طرح رات گزارتا ہوں میرا پروردگار کھلاتا ہے اور میری پیاس بجھاتا ہے۔ (بخاری ومسلم)
تشریح
روزہ پر روزہ ، کا مطلب یہ ہے کہ دو یا دو سے زائد روزے اس طرح مسلسل رکھے جائیں کہ درمیان میں افطار نہ ہو روزہ پر روزہ رکھنے سے اس لئے منع فرمایا گیا ہے کہ ضعف کا سبب ہوتا ہے جس کی وجہ سے دوسری عبادات و طاعات میں نقصان و حرج واقع ہوتا ہے۔ اس مسئلہ میں علماء کے ہاں اختلاف ہے کہ آیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ اور لوگوں کے لئے روزہ پر روزہ رکھنا جائز ہے یا حرام اور مکروہ ؟ چنانچہ بعض حضرات تو اس شخص کے لئے جواز کے قائل ہیں جو اس پر قادر ہو، یہ حضرات کہتے ہیں کہ اس صورت میں حدیث بالا میں مذکورہ ممانعت صرف رحمت و شفقت کے طور پر ہے ان کی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہ روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو وصال یعنی روزہ پر روزہ رکھنے سے ان پر رحمت و شفقت کے پیش نظر منع فرمایا ہے۔ نیز بعض صحابہ مثلا حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ اور بعض تابعین مثلا حضرت عبداللہ بن معمر، عامر بن عبداللہ بن زبیر اور حضرت ابراہیم تیمی رحمھما اللہ کے بارے میں منقول ہے کہ یہ حضرات روزہ پر روزہ رکھتے تھے۔ اکثر علماء کہتے ہیں کہ یہ جائز نہیں ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ اور حضرت امام مالک اور امام شافعی رحمھما اللہ نے اسے مکروہ کہا ہے اگرچہ اس بات میں اختلاف ہے کہ آیا مکروہ تحریمی ہے یا مکروہ تنزیہی ؟ زیادہ صحیح قول یہی ہے کہ مکروہ تحریمی ہے جمہور علماء کا کہنا یہ ہے کہ روزہ پر روزہ رکھنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائص میں سے ہے اور حدیث کے ظاہر مفہوم سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے اس بنا پر اہل سلوک کہ جو ریاضت و مجاہدہ اور نفس کشی کا زیادہ شوق اور ذوق رکھتے ہیں ایک چلو پانی سے ہر روزہ کا افطار کر لیا کرتے تھے تاکہ روزہ پر روزہ رکھنے کا اطلاق نہ ہو سکے۔
یطعمنی ربی ویسقینی کی مراد کے بارے میں کئی اقوال ہیں مختار اور زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ اس سے ظاہری کھلانا پلانا مراد نہیں ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غذائے جسمانی سے قطعا مستغنی تھے اور جب دنیاوی طور پر محبت مجازی اور مسرت حسی میں اس کا تجربہ ہے تو محبت حقیقی اور مسرت معنوی کا کیا کہنا کہ اس کی وجہ سے علائق دنیا سے جتنا بھی استغنا ہو کم ہے۔