وہ چیزیں جن سے روزہ فاسد نہیں ہوتا
راوی:
کسی شخص کو روزے کا خیال نہ رہا اور اس وجہ سے اس نے کچھ کھا پی لیا یا جماع کر لیا تو روزہ فاسد نہیں ہو گا، خواہ روزہ فرض ہو یا نفل کسی شخص نے بھول کر جماع شروع کیا پھر فورا ہی یاد آ گیا کہ روزہ دار ہوں تو اگر اس نے یاد آتے ہی فورا اپنا عضو مخصوص شرمگاہ سے باہر نکال لیا تو روزہ نہیں ٹوٹے گا اور اگر نہ نکالا تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ اس صورت میں اس روزے کی قضا لازم ہو گی کفارہ ضروری نہیں ہو گا مگر بعض حضرات کہتے ہیں کہ کفارہ کا ضروری نہ ہونا اس صورت سے متعلق ہے جب کہ اپنے بدن کو حرکت نہ دے یعنی یاد آ جانے کے بعد دھکا نہ لگائے ۔ جس سے کہ انزال ہو جائے کیونکہ اگر دھکا لگائے تو کفارہ لازم ہو گا جیسا کہ اگر کوئی شخص یاد آ جانے کے بعد عضو مخصوص باہر نکال کر پھر داخل کرے تو اس پر کفارہ لازم ہو گا اگر کوئی شخص طلوع فجر سے پہلے قصدا جماع میں مشغول ہو گیا اور اسی دوران فجر طلوع ہو گئی تو اسے فورا علیحدہ ہو جانا ضروری ہو گا اگر نہ صرف یہ کہ فورا علیحدہ نہ ہو بلکہ بدن کو حرکت بھی دے تو اس صورت میں کفارہ لازم ہو گا ۔ ہاں بدن کو حرکت نہ دے اور علیحدہ بھی نہ ہو تو صرف روزہ فاسد ہو جائے اگر کوئی شخص طلوع فجر کے خوف سے جماع سے علیحدہ ہو جائے اور پھر طلوع فجر کے بعد جماع سے علیحدہ ہو جانے کی صورت میں انزال ہو جائے تو اس سے روزہ پر اثر نہیں پڑے گا۔
اگر کوئی شخص بھول کر کچھ کھا پی رہا ہو تو دوسرے لوگوں کو اسے یاد دلانا چاہئے کیونکہ ایسی حالت میں اسے یاد نہ دلانا مکروہ ہے بشرطیکہ اس شخص میں روزہ رکھنے کی قوت ہو اور وہ بغیر کسی مشقت کے رات تک اپنا روزہ پورا کرنے کی طاقت رکھتا ہو اگر کوئی شخص اسے یاد دلا دے اور پھر بھی اسے یاد نہ آئے اور وہ کھا پی لے تو اس صورت میں اس پر قضا لازم ہو گی اگر اس شخص میں روزہ رکھنے کی قوت نہ ہو تو اسے یاد نہ دلانا ہی اولیٰ ہے۔
عورت کی شرمگاہ کی طرف نظر ڈالنے کی وجہ سے انزال ہونے کی صورت میں روزہ نہیں ٹوٹتا اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ جانور کے ساتھ فعل بد کرنے سے انزال ہو جانے کی صورت میں روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟ چنانچہ بعض حضرات کے نزدیک تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے جب کہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ روزہ نہیں ٹوٹتا، ہاں اگر انزال نہ ہو تو متفقہ طور پر مسئلہ یہ ہے کہ صرف فعل بد کی وجہ سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
جلق کے ذریعے انزال ہو جانے کی صورت میں روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور قضا لازم آتی ہے کفارہ ضروری نہیں ہوتا اس بارے میں یہ بات جان لینی ضروری ہے کہ یہ فعل قبیح (جلق) غیر رمضان میں بھی حلال نہیں ہے جب کہ اسے قضاء شہوت مقصود ہو ہاں اگر تسکین شہوت مقصود ہو تو پھر امید ہے کہ اس صورت میں کوئی وبال نہیں ہو گا یعنی اگر کوئی شخص محض لذت حاصل کرنے کے لئے اس فعل میں مبتلا ہو تو اس کے لئے یہ قطعا حلال نہیں ہے اور اگر اضطراب و بیقراری کی یہ حالت ہو کہ اس فعل کے ذریعے منی خارج نہ کرنے کی صورت میں زنا میں مبتلا ہو جانے کا خوف ہو اور وہ جلق کرے تو پھر امید ہے کہ وہ گنہگار نہ ہو لیکن اس پر مداومت بہر صورت گناہ کا باعث ہے۔
کسی عورت کا تصور کرنے سے انزال ہو جائے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا اسی طرح دو عورتوں کا آپس میں فعل بد کرنا جیسے چپٹی لگانا بھی کہا جاتا ہے روزہ کو نہیں توڑتا بشرطیکہ انزال نہ ہو اگر انزال ہو گا تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور قضا لازم آئے گی تیل لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ مسامات کے ذریعے کسی چیز کا بدن میں داخل ہونا روزے کے منافی نہیں ہے یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی شخص نہائے اور اس کے جگر کو ٹھنڈک پہنچے اسی طرح سرمہ لگانے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا، اگرچہ اس کا مزہ حلق میں محسوس ہو یا اس کا رنگ رینٹ اور تھوک میں ظاہر ہو کیونکہ آنکھ اور دماغ کے درمیان کوئی نہیں ہے اسی لئے آنکھوں سے آنسو بھی ٹپک کر نکلتے ہیں جیسا کہ کسی چیز کا عرق کشید ہوتا ہے اور یہ بتایا ہی جا چکا ہے کہ جو چیز مسامات کے ذریعے بدن میں داخل ہوتی ہے وہ روزہ کے منافی نہیں ہے پھر یہ کہ سرمہ کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہ روایت منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزہ کی حالت میں سرمہ لگایا کرتے تھے اسی طرح اگر آنکھ میں دوا یا دودھ تیل کے ساتھ ڈالا جائے اور اس کا مزہ یا اس کی تلخی حلق میں محسوس ہو تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔
اگر کوئی شخص کوئی چیز یعنی روئی وغیرہ نگل جائے درآنحالیکہ وہ کسی ڈورے میں بندھی ہو اور ڈورہ اس کے ہاتھ میں ہو تو روزہ نہیں ٹوٹے گا جب تک وہ ڈورے سے کھل کر پیٹ میں نہ گر جائے اگر ڈورے سے کھل کر گر پڑے گی تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ اور اگر کوئی حلق میں لکڑی یا اسی کی مانند کوئی اور چیز داخل کرے اور اس کا دوسرا سرا اس کے ہاتھ میں ہو تو روزہ نہیں ٹوٹے گا، اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی انگلی مقعد میں داخل کرے یا کوئی عورت اپنی شرمگاہ میں داخل کرے تو روزہ فاسد نہیں ہو گا۔ ہاں اگر انگلی پانی یا تیل سے تر ہو گی تو ٹوٹ جائے گا۔ سینگی اور غیبت سے روزہ فاسد نہیں ہوتا البتہ روزہ کا ثواب جاتا رہتا ہے محض افطار کی نیت کرنے سے جب کہ کچھ کھائے پئے نہیں روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کسی شخص کے حلق میں بے قصد و بے اختیار دھواں چلا جائے تو روزہ فاسد نہیں ہوتا کیونکہ اس سے بچنا قطعا ناممکن ہے اگر کوئی شخص احتیاط کے پیش نظر ایسے موقعہ پر اپنا منہ بند بھی کر لے تو دھواں ناک کے ذریعے داخل ہو گا، لہٰذا یہ تری کی قسم سے ہے جو کلی کے بعد منہ میں باقی رہتی ہے اور جس سے روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا، ہاں اگر قصدا کوئی شخص اپنے حلق میں دھواں داخل کرے گا اور داخل کرنا کسی بھی صورت سے ہو تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا خواہ دھواں عنبر کا ہو یا اگر بتی کا یا ان کے علاوہ کسی بھی چیز کا لہٰذا اگر کوئی شخص خوشبو کی کوئی چیز جلا کر اس کا دھواں اپنی طرف لے گا اور اس کو سونگھے گا باوجودیکہ اسے یہ یاد ہو کہ میں روزہ دار ہوں تو اس کا روزہ فاسد ہو جائے گا کیونکہ اس کے لئے اس سے بچنا ممکن ہے اس مسئلہ سے اکثر لوگ غافل ہیں اس بارے میں احتیاط پیش نظر رہنی چاہئے یہ بات بھی جان لینی چاہئے کہ اس مسئلے کو مشک و گلاب اور دیگر خوشبو کے سونگھنے پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ محض خوشبودار دھوئیں کے اس جوہر میں جو قصدا حلق میں داخل کیا جائے جو فرق ہے وہ سب ہی جانتے ہیں اسی طرح حقہ کے دھویں سے بھی روزہ جاتا رہتا ہے کیونکہ وہ قصدا کھینچا جاتا ہے اور اس سے نفس کو تسکین ہوتی ہے اور اکثر حالت میں بطور دوا استعمال کیا جاتا ہے۔
پسینہ اور آنسو حلق میں جانے سے روزہ پر اثر نہیں پڑتا جب کہ وہ تھوڑی مقدار میں ہوں ہاں اگر وہ زیادہ مقدار میں جائیں کہ جس سے حلق میں نمکینی محسوس ہو تو روزہ ٹوٹ جائے گا کسی خوشبو کی چیز مثلاً پھول و عطر وغیرہ سونگھنے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔
کسی شخص کے حلق میں غبار یا چکی پیستے ہوئے آٹا یا مکھی جائے یا دوائیں کوٹتے ہوئے یا ان کی پڑیا باندھتے ہوئے اس میں سے کچھ اڑ کر حلق میں چلا جائے تو روزہ فاسد نہیں ہو گا کیونکہ ان چیزوں سے بچنا ناممکن ہے۔
کوئی روزہ دار حالت جنابت میں صبح کو اٹھے تو اس کا روزہ فاسد نہیں ہو گا اگرچہ وہ پورے دن یا کئی دن تک اسی طرح رہے اور غسل پاکی نہ کرے البتہ نجس رہنے اور نماز وغیرہ پڑھنے کی وجہ سے ثواب سے محروم رہے گا۔
اگر کوئی شخص روزہ کی حالت میں اپنے عضو مخصوص کے سوراخ میں دوا یا تیل ڈالے یا اسی طرح سلائی وغیر داخل کرائے تو اگرچہ یہ چیزیں مثانہ تک پہنچ جائیں۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ کے قول کے مطابق روزہ فاسد نہیں ہو گا کیونکہ مثانہ نہ صرف یہ کہ جوف سے خارج ہے بلکہ مثانہ میں سے اندر کو راستہ نہیں ہے اسی لئے پیشاب بھی ٹپک کر نکلتا ہے البتہ امام ابویوسف کے نزدیک مذکورہ بالا صورت میں روزہ جاتا رہتا ہے ہاں اگر یہ چیزیں مثانہ تک نہ پہنچیں بلکہ عضو مخصوص کی اندرونی نالی تک ہی محدود رہیں تو تینوں حضرات کے نزدیک روزہ فاسد نہیں ہوتا۔
کوئی شخص پانی میں بیٹھ جائے اور پانی اس کے کان میں چلا جائے یا وہ تنکے سے اپنا کان کھجلائے اور تنکے پر کان کا میل ظاہر ہو اور پھر وہ اس تنکے کو کان میں ڈالے اور اس طرح کئی مرتبہ کرے تب بھی روزہ فاسد نہیں ہو گا۔
کسی شخص کی ناک میں دماغ سے اتر کر بلغم آ جائے اور وہ اس کو چڑھا جائے یا نگل جائے جیسا کہ اکثر بے تمیز اور کثیف الطبع لوگ کرتے ہیں تو روزہ نہیں ٹوٹتا، کسی کے منہ سے لعاب نکلے اور وہ منقطع نہ ہو بلکہ مثل تار کے لٹک کر ٹھوڑی تک پہنچ جائے اور پھر وہ اس لعاب کو اوپر کھینچ کر نگل جائے تو روزہ نہیں ٹوٹتا، ہاں اگر لعاب لٹکتا نہ بلکہ منقطع ہو کر گر جائے، اور پھر وہ اسے منہ میں ڈال لے تو روزہ جاتا رہے گا، منہ بھر بلغم نگل جانے سے امام ابویوسف کے نزدیک روزہ جاتا رہتا ہے مگر امام اعظم کے نزدیک اس سے روزہ نہیں جاتا امام شافعی کے نزدیک جب کہ بلغم وغیرہ کے تھوک دینے پر قادر ہو اور اس کے باوجود نگل جائے تو روزہ فاسد ہو جاتا ہے۔
بے اختیار قے ہو جانے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا خواہ قے کسی قدر ہو منہ بھر کر یا اس سے زیادہ اسی طرح صورت میں بھی روزہ فاسد نہیں ہوتا جب کہ آئی ہوئی قے بے اختیار خلق کے نیچے اتر جائے خواہ وہ کسی قدر ہو لیکن امام ابویوسف کے نزدیک اس صورت میں روزہ جاتا رہتا ہے ہاں اگر وہ قصدا نگل جائے اور منہ بھر کر ہو تو سب ہی کے نزدیک روزہ جاتا رہے گا البتہ کفارہ لازم نہیں آئے گا اور اگر منہ بھر کر نہیں ہو گی تو روزہ فاسد نہیں ہو گا اگر کوئی شخص قصدا قے کرے اور منہ بھر کر ہو تو متفقہ طور پر مسئلہ یہ ہے کہ روزہ جاتا رہے گا اور اگر منہ بھر کر نہ ہو تو امام ابویوسف کے نزدیک روزہ فاسد نہیں ہو گا اور صحیح یہی ہے حضرت امام محمد کا قول ہے کہ منہ بھر کر نہ ہونے کی صورت میں روزہ جاتا رہتا ہے۔ جو قے عمدا کی جائے اور منہ بھر کر نہ ہو اور وہ بے اختیار حلق کے نیچے اتر جائے تو روزہ فاسد نہیں ہو گا، قصدا نگل جانے کے بارے میں دو قول ہیں صحیح قول یہ ہے کہ اس صورت میں روزہ فاسد نہیں ہو گا۔
کوئی چیز جو غذا وغیرہ کی قسم سے ہو اور رات میں دانتوں کے درمیان باقی رہ گئی ہو تو دن میں اسے نگل جانے سے روزہ فاسد نہیں ہو گا بشرطیکہ وہ چنے کی مقدار سے کم ہو اور منہ سے باہر نکال کر نہ کھائی جائے ، اسی طرح کسی کے دانتوں سے یا منہ کے کسی دوسرے اندرونی حصے سے خون نکلے اور حلق میں چلا جائے تو روزہ نہیں جاتا بشرطیکہ وہ پیٹ تک نہ پہنچے یا پیٹ میں پہنچ جائے مگر تھوک کے ساتھ مخلوط ہو کر اور تھوک سے کم اور اس کا مزہ حلق میں محسوس نہ ہو اگر خون پیٹ تک پہنچ جائے گا اور وہ تھوک پر غالب ہو گا یا تھوک کے برابر ہو گا تو روزہ فاسد ہو جائے گا۔
اگر کوئی شخص بقدر تل کوئی چیز باہر سے منہ میں ڈال کر چبائے اور وہ منہ میں پھیل بھی جائے تو روزہ فاسد نہیں ہو گا بشرطیکہ حلق میں اس کا مزہ محسوس نہ ہو، ہاں اگر وہ چیز منہ میں پھیلے نہیں نیز اس کا مزہ حلق میں محسوس ہو یا یہ کہ بغیر چبائے ہی اس چیز کو نگل جائے اور حلق میں اس کا مزہ محسوس نہ ہو تب بھی روزہ ٹوٹ جائے گا اور اگر وہ چیز ان چیزوں میں سے ہو گی جن سے کفارہ لازم آتا ہے تو کفارہ ضروری ہو گا نہیں تو قضاء لازم آئے گی۔