نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے (سابقہ آسمانی) کتابوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ۔
راوی:
حَدَّثَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا رَيْحَانُ هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ السَّامِيُّ حَدَّثَنَا عَبَّادٌ هُوَ ابْنُ مَنْصُورٍ عَنْ أَبِي رَجَاءٍ قَالَ كُنَّا فِي الْجَاهِلِيَّةِ إِذَا أَصَبْنَا حَجَرًا حَسَنًا عَبَدْنَاهُ وَإِنْ لَمْ نُصِبْ حَجَرًا جَمَعْنَا كُثْبَةً مِنْ رَمْلٍ ثُمَّ جِئْنَا بِالنَّاقَةِ الصَّفِيِّ فَتَفَاجُّ عَلَيْهَا فَنَحْلُبُهَا عَلَى الْكُثْبَةِ حَتَّى نَرْوِيَهَا ثُمَّ نَعْبُدُ تِلْكَ الْكُثْبَةَ مَا أَقَمْنَا بِذَلِكَ الْمَكَانِ قَالَ أَبُو مُحَمَّد الصَّفِيُّ الْكَثِيرَةُ الْأَلْبَانِ
ابورجاء رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں زمانہ جاہلیت میں ہمارا یہ حال تھا کہ جب ہم کسی خوبصورت پتھر کے پاس پہنچتے تو ہم اس کی عبادت کرنے لگتے تھے اور اگر ہمیں کوئی پتھر نہ ملتا تو ہم ریت کا ایک ٹیلہ بنالیتے اور پھر زیادہ دودھ دینے والی ایک اونٹنی کو لا کر اس ٹیلے پر کھڑا کرتے۔ ہم اس اونٹنی کا دودھ اس ٹیلے پر دوھ لیتے اور پھر اسے سیراب کرتے پھر جب تک ہم اس مقام پر رہتے اس کی عبادت کرتے۔ امام ابو محمد دارمی فرماتے ہیں (اس روایت میں استعمال ہونے والا لفظ(صفی کا مطلب ہے بہت زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی (جبکہ اس روایت میں استعمال ہونے والالفظ) فتفاج کا مطلب ہے جب کوئی اونٹنی اپنی دونوں ٹانگیں دودھ دوہنے کے لئے پھیلادے اور فج کھلے راستے کو کہتے ہیں اور اس کی جمع فجاج استعمال ہوتی ہے۔