سنن دارمی ۔ جلد اول ۔ مقدمہ دارمی ۔ حدیث 45

آپ کے کھانے میں برکت کے ذریعے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو بزرگی عطا کی گئی۔

راوی:

أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ نُبَيْحٍ الْعَنَزِيِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ لِيُقَاتِلَهُمْ فَقَالَ أَبِي عَبْدُ اللَّهِ يَا جَابِرُ لَا عَلَيْكَ أَنْ تَكُونَ فِي نَظَّارِي أَهْلِ الْمَدِينَةِ حَتَّى تَعْلَمَ إِلَى مَا يَصِيرُ أَمْرُنَا فَإِنِّي وَاللَّهِ لَوْلَا أَنِّي أَتْرُكُ بَنَاتٍ لِي بَعْدِي لَأَحْبَبْتُ أَنْ تُقْتَلَ بَيْنَ يَدَيَّ قَالَ فَبَيْنَمَا أَنَا فِي النَّظَّارِينَ إِذْ جَاءَتْ عَمَّتِي بِأَبِي وَخَالِي لِتَدْفِنَهُمَا فِي مَقَابِرِنَا فَلَحِقَ رَجُلٌ يُنَادِي إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَرُدُّوا الْقَتْلَى فَتَدْفِنُوهَا فِي مَضَاجِعِهَا حَيْثُ قُتِلَتْ فَرَدَدْنَاهُمَا فَدَفَنَّاهُمَا فِي مَضْجَعِهِمَا حَيْثُ قُتِلَا فَبَيْنَا أَنَا فِي خِلَافَةِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ إِذْ جَاءَنِي رَجُلٌ فَقَالَ يَا جَابِرُ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ لَقَدْ أَثَارَ أَبَاكَ عُمَّالُ مُعَاوِيَةَ فَبَدَا فَخَرَجَ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ فَانْطَلَقْتُ إِلَيْهِ فَوَجَدْتُهُ عَلَى النَّحْوِ الَّذِي دَفَنْتُهُ لَمْ يَتَغَيَّرْ إِلَّا مَا لَمْ يَدَعْ الْقَتِيلَ قَالَ فَوَارَيْتُهُ وَتَرَكَ أَبِي عَلَيْهِ دَيْنًا مِنْ التَّمْرِ فَاشْتَدَّ عَلَيَّ بَعْضُ غُرَمَائِهِ فِي التَّقَاضِي فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبِي أُصِيبَ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا وَإِنَّهُ تَرَكَ عَلَيْهِ دَيْنًا مِنْ التَّمْرِ وَإِنَّهُ قَدْ اشْتَدَّ عَلَيَّ بَعْضُ غُرَمَائِهِ فِي الطَّلَبِ فَأُحِبُّ أَنْ تُعِينَنِي عَلَيْهِ لَعَلَّهُ أَنْ يُنْظِرَنِي طَائِفَةً مِنْ تَمْرِهِ إِلَى هَذَا الصِّرَامِ الْمُقْبِلِ قَالَ نَعَمْ آتِيكَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ قَرِيبًا مِنْ وَسَطِ النَّهَارِ قَالَ فَجَاءَ وَمَعَهُ حَوَارِيُّوهُ قَالَ فَجَلَسُوا فِي الظِّلِّ وَسَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتَأْذَنَ ثُمَّ دَخَلَ عَلَيْنَا قَالَ وَقَدْ قُلْتُ لِامْرَأَتِي إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَائِيَّ الْيَوْمَ وَسَطَ النَّهَارِ فَلَا يَرَيَنَّكِ وَلَا تُؤْذِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَيْءٍ وَلَا تُكَلِّمِيهِ فَفَرَشَتْ فِرَاشًا وَوِسَادَةً وَوَضَعَ رَأْسَهُ فَنَامَ فَقُلْتُ لِمَوْلًى لِي اذْبَحْ هَذِهِ الْعَنَاقَ وَهِيَ دَاجِنٌ سَمِينَةٌ فَالْوَحَى وَالْعَجَلَ افْرُغْ مِنْهَا قَبْلَ أَنْ يَسْتَيْقِظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَكَ فَلَمْ نَزَلْ فِيهَا حَتَّى فَرَغْنَا مِنْهَا وَهُوَ نَائِمٌ فَقُلْتُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ يَسْتَيْقِظُ يَدْعُو بِطَهُورِهِ وَأَنَا أَخَافُ إِذَا فَرَغَ أَنْ يَقُومَ فَلَا يَفْرُغَ مِنْ طُهُورِهِ حَتَّى يُوضَعَ الْعَنَاقُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ قَالَ يَا جَابِرُ ايْتِنِي بِطَهُورٍ قَالَ نَعَمْ فَلَمْ يَفْرُغْ مِنْ وُضُوئِهِ حَتَّى وُضِعَتْ الْعَنَاقُ بَيْنَ يَدَيْهِ قَالَ فَنَظَرَ إِلَيَّ فَقَالَ كَأَنَّكَ قَدْ عَلِمْتَ حُبَّنَا اللَّحْمِ ادْعُ أَبَا بَكْرٍ ثُمَّ دَعَا حَوَارِيِّيهِ قَالَ فَجِيءَ بِالطَّعَامِ فَوُضِعَ قَالَ فَوَضَعَ يَدَهُ وَقَالَ بِسْمِ اللَّهِ كُلُوا فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا وَفَضَلَ مِنْهَا لَحْمٌ كَثِيرٌ وَقَالَ وَاللَّهِ إِنَّ مَجْلِسَ بَنِي سَلَمَةَ لَيَنْظُرُونَ إِلَيْهِمْ هُوَ أَحَبُّ إِلَيْهِمْ مِنْ أَعْيُنِهِمْ مَا يَقْرَبُونَهُ مَخَافَةَ أَنْ يُؤْذُوهُ ثُمَّ قَامَ وَقَامَ أَصْحَابُهُ فَخَرَجُوا بَيْنَ يَدَيْهِ وَكَانَ يَقُولُ خَلُّوا ظَهْرِي لِلْمَلَائِكَةِ قَالَ فَاتَّبَعْتُهُمْ حَتَّى بَلَغْتُ سَقُفَّةَ الْبَابِ فَأَخْرَجَتْ امْرَأَتِي صَدْرَهَا وَكَانَتْ سَتِيرَةً فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلِّ عَلَيَّ وَعَلَى زَوْجِي قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْكِ وَعَلَى زَوْجِكِ ثُمَّ قَالَ ادْعُوا لِي فُلَانًا لِلْغَرِيمِ الَّذِي اشْتَدَّ عَلَيَّ فِي الطَّلَبِ فَقَالَ أَنْسِ جَابِرًا طَائِفَةً مِنْ دَيْنِكَ الَّذِي عَلَى أَبِيهِ إِلَى هَذَا الصِّرَامِ الْمُقْبِلِ قَالَ مَا أَنَا بِفَاعِلٍ قَالَ وَاعْتَلَّ وَقَالَ إِنَّمَا هُوَ مَالُ يَتَامَى فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ جَابِرٌ قَالَ قُلْتُ أَنَا ذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ كِلْ لَهُ مِنْ الْعَجْوَةِ فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى سَوْفَ يُوَفِّيهِ فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَإِذَا الشَّمْسُ قَدْ دَلَكَتْ قَالَ الصَّلَاةُ يَا أَبَا بَكْرٍ قَالَ فَانْدَفَعُوا إِلَى الْمَسْجِدِ فَقُلْتُ لِغَرِيمِي قَرِّبْ أَوْعِيَتَكَ فَكِلْتُ لَهُ مِنْ الْعَجْوَةِ فَوَفَّاهُ اللَّهُ وَفَضَلَ لَنَا مِنْ التَّمْرِ كَذَا وَكَذَا قَالَ فَجِئْتُ أَسْعَى إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسْجِدِهِ كَأَنِّي شَرَارَةٌ فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ صَلَّى فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي قَدْ كِلْتُ لِغَرِيمِي تَمْرَهُ فَوَفَّاهُ اللَّهُ وَفَضَلَ لَنَا مِنْ التَّمْرِ كَذَا وَكَذَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ فَجَاءَ يُهَرْوِلُ قَالَ سَلْ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ غَرِيمِهِ وَتَمْرِهِ قَالَ مَا أَنَا بِسَائِلِهِ قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ اللَّهَ سَوْفَ يُوَفِّيهِ إِذْ أَخْبَرْتَ أَنَّ اللَّهَ سَوْفَ يُوَفِّيهِ فَرَدَّدَ عَلَيْهِ وَرَدَّدَ عَلَيْهِ هَذِهِ الْكَلِمَةَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ كُلُّ ذَلِكَ يَقُولُ مَا أَنَا بِسَائِلِهِ وَكَانَ لَا يُرَاجَعُ بَعْدَ الْمَرَّةِ الثَّالِثَةِ فَقَالَ مَا فَعَلَ غَرِيمُكَ وَتَمْرُكَ قَالَ قُلْتُ وَفَّاهُ اللَّهُ وَفَضَلَ لَنَا مِنْ التَّمْرِ كَذَا وَكَذَا فَرَجَعْتُ إِلَى امْرَأَتِي فَقُلْتُ أَلَمْ أَكُنْ نَهَيْتُكِ أَنْ تُكَلِّمِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي فَقَالَتْ تَظُنُّ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى يُورِدُ نَبِيَّهُ فِي بَيْتِي ثُمَّ يَخْرُجُ وَلَا أَسْأَلُهُ الصَّلَاةَ عَلَيَّ وَعَلَى زَوْجِي

حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے تشریف لے گئے تو میرے والد عبداللہ نے کہا اے جابر رضی اللہ عنہ تم کو اس میں کوئی الجھن محسوس نہیں کرنی چاہئے کہ تم مدینہ کے مخالفین میں شامل ہو ۔ یہاں تک تمہیں اس بات کا پتہ چل جائے کہ ہمارے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا اللہ کی قسم اگر میں نے اپنے بعد بیٹیاں نہ چھوڑی ہوتیں تو مجھے یہ بات پسند تھی کہ تم میرے سامنے شہید ہوتے۔
حضرت جابر بیان کرتے ہیں میں مدینہ کے مخالفین میں شامل تھا۔ جب میری پھوپھی میرے والد اور میرے ماموں(کی میت) کے ساتھ آئیں تا کہ انہیں ہمارے قبرستان میں دفن کیا جائے۔ ایک شخص نے یہ اعلان کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت کی ہے کہ تم مقتولین کو واپس لے جاؤ اور انہیں اسی جگہ پر دفن کرو جہاں وہ شہید ہوئے ہیں۔ ہم ان دونوں کو واپس لے گئے اور ان دونوں حضرات کو وہیں دفن کیا جہاں وہ شہید ہوئے تھے ( حضرت جابر بیان کرتے ہیں) میں حضرت معاویہ بن ابوسفیان کے عہد خلافت میں ایک شخص میرے پاس آ یا اور بولا اے جابر بن عبداللہ حضرت معاویہ کے سرکاری اہلکاروں نے آپ کے والد کی قبر سے مٹی ہٹادی ہے۔ جس سے میت ظاہر ہو ئی ہے۔ لوگوں میں سے بہت سے لوگ نکلے میں بھی وہاں گیا تو میں نے انہیں اسی حالت میں پایا جس حالت میں انہیں دفن کیا تھا اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں آ ئی تھی'سوائے اس کے کہ قتل کی وجہ سے جوتبدیلی آنی تھی حضرت جابر کہتے ہیں میں نے ان کی قبر کو ڈھانپ دیا۔ میرے والد نے اپنے ذمہ کھجوروں کا کچھ قرض چھوڑا تھا قرض خواہوں نے مجھ سے شدت کے ساتھ مطالبہ کیا میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول میرے والد فلاں موقع پر شہید ہوگئے انہوں نے کھجوروں کا کچھ قرض چھوڑا ہے قرض خواہ مجھ سے شدت سے تقاضا کر رہے ہیں میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ اس معاملے میں میری مدد کیجیے تاکہ قرض خواہ اگلی آنیوالی پیدوار تک میرے ساتھ کچھ نرمی کریں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ٹھیک ہے اگر اللہ نے چاہا تو میں دوپہر کے قریب کسی وقت تمہارے پاس آؤں گا۔ حضرت جابر بیان کرتے ہیں آپ تشریف لائے آپ کے ساتھ آپ کے ساتھی بھی تھے یہ سب حضرات سائے میں بیٹھ گئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا اور اندر آنے کی اجازت مانگی اور پھر آپ اندر تشریف لائے حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے اپنی اہلیہ سے کہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر کے وقت تشریف لائیں گے وہ تمہیں(یعنی تمہاری طرف سے کوئی ناخوشگوار بات) نہ دیکھیں گے اور تم اللہ کے رسول کو کوئی اذیت نہ ہونے دینا اور تم میرے گھر میں اللہ کے رسول کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ ہونے دینا اور ان سے بات کرنے کی کوشش نہ کرنا۔ اس عورت نے ایک بچھونا بچھا دیا اور ایک تکیہ رکھ دیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا سر رکھا اور سو گئے۔ میں نے اپنے غلام سے کہا اس بکری کو ذبح کرو۔ یہ موٹی اور صحت مند بکری تھی اور جلدی کرنا تیزی کے ساتھ۔ تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیدار ہونے سے پہلے اس کام سے فارغ ہوجانا میں تمہارے ساتھ رہوں گا۔ ہم نے یہ کام کیا یہاں تک کہ اس سے فارغ ہوگئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سو رہے تھے۔ میں نے عرض کیا اللہ کے رسول جب بیدار ہوں گے تو وہ وضو کے لئے پانی مانگیں گے مجھے یہ اندیشہ ہے کہ جب وہ فارغ ہوں گے تواٹھ کرچلیں جائیں گے۔ لہذا وہ جتنی دیر میں وضو کرکے فارغ ہوتے ہیں بکری کا گوشت آپ کے آگے رکھ دیا جائے۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیداہوئے تو آپ نے ارشاد فرمایا اے جابر رضی اللہ عنہ وضو کے لئے پانی لاؤ میں نے عرض کیا جی ہاں پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی وضو کرکے فارغ ہی ہوئے تھے کہ بکری کا گوشت آپ کے آگے رکھ دیا گیا۔ حضرت جابر بیان کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف دیکھا اور ارشاد فرمایا تمہیں پتا ہے کہ مجھے گوشت پسند ہے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلاؤ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو بلایا حضرت جابر بیان کرتے ہیں کھانا لا کر رکھ دیا گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک رکھا اور ارشاد فرمایا اللہ کا نام لے کھانا شروع کرو ان حضرات نے کھانا شروع کیا وہ سیر ہوگئے پھر بھی اس میں سے بہت سا گوشت باقی بچ گیا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں اللہ کی قسم بنوسلمہ کی محفل میں بیٹھے ہوئے لوگ ان کی طرف دیکھ رہے تھے یہ بات ان کے نزدیک ان کی آنکھوں سے زیادہ عزیز تھی وہ آپ کے قریب اس لئے نہیں آتے تھے کہ کہیں آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے آپ کے ساتھی بھی کھڑے ہوئے وہ حضرات آپ کے آگے نکلے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ میرے پیچھے والی جگہ فرشتوں کے لئے چھوڑ دیا کرو ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ان کے پیچھے میں بھی آیا۔ یہاں تک کہ جب ہم دروازے کی چوکھٹ تک پہنچے تو میری بیوی نے سر باہر نکال کر کہا حالانکہ وہ پردہ دار عورت تھی اے اللہ کے رسول آپ میرے لئے اور میرے شوہر کے لئے دعائے برکت کریں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ تم پر اور تمہارے شوہر پر برکت نازل کرے پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا فلاں شخص کو بلا کر لاؤ یہ آپ نے قرض خواہ کے لئے کہا جس نے مجھ سے سختی سے مطالبہ کیا تھا پھر آپ نے حکم دیا تم جابر کو اپنے قرض میں سے کچھ چھوٹ دو جو اس کے والد کے ذمہ واجب الاداء تھا اور یہ چھوٹ اگلی پیدوار تک ہوگی اس نے عرض کیا میں یہ نہیں کرسکوں گا حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اس نے کوئی عذر بیان کیا اور بولا کہ یہ یتیموں کا مال ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا جابر (رضی اللہ عنہ) کہاں ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں یہاں ہوں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اسے ناپ کر دیدو کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کھجوروں کو پورا کردے گا پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھایا سورج ڈھل چکا تھا آپ نے فرمایا ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز کا وقت ہوگیا ہے پھر یہ حضرات مسجد کی طرف تشریف لے گئے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے قرض خواہ سے کہا تم اپنا برتن آگے لاؤ میں نے اسے ناپ کر عجوہ کھجور دیدیں تو اللہ نے ان کھجوروں کو وہیں پورا کردیا اور پھر بھی ہمارے پاس اتنی کھجوریں بچ گئیں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ڈورتا ہوا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد میں آیا یوں جیسے کوئی شعلہ ہوتا ہے میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے پایا میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول میں نے اپنے قرض خواہ کو ناپ کر اس کی کھجوریں دے دیں ہیں ۔ اللہ نے انہیں پورا کردیا تھا پھر بھی ہمارے پاس اتنی اتنی کھجوریں بچ گئیں ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ عمر بن خطاب کہاں ہیں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں وہ تیزی سے چلتے ہوئے آئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جابر رضی اللہ عنہ سے اس کے قرض خواہ اور کھجوروں کا معاملہ دریافت کرو۔ حضرت عمر نے عرض کی میں یہ نہیں پوچھوں گا۔ کیونکہ مجھے پتا تھا کہ اللہ انہیں پورا کردے گا یہ اسی وقت پتا چل گیا تھا جب آپ نے ارشاد فرمایا تھا کہ اللہ اس کو پورا کردے گا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی اور حضرت عمر نے ہر مرتبہ یہی کہا کہ میں نہیں پوچھوں گا پھر انہوں نے دریافت کیا کہ تمہارے قرض خواہ اور کھجوروں کا کیا معاملہ ہوا حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے بتایا اللہ نے انہیں پورا کردیا تھا اور پھر بھی ہمارے پاس اتنی اتنی کھجوریں بچ گئیں ہیں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں اپنی اہلیہ کے پاس واپس آیا اور کہا میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ تم میرے گھر میں اللہ کے رسول کے ساتھ کلام نہیں کرو گی وہ عورت بولی کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ اللہ اپنے نبی کو ہمارے ہاں لائے اور پھر وہ واپس تشریف لے جائیں اور میں ان سے اپنے بارے میں اور اپنے شوہر کے بارے میں دعائے رحمت کے لئے نہ کہوں۔

یہ حدیث شیئر کریں