مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ نفل روزہ کا بیان ۔ حدیث 577

یوم عاشورہ کا روزہ کیوں؟

راوی:

عن ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قدم المدينة فوجد اليهود صياما يوم عاشوراء فقال لهم رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ما هذا اليوم الذي تصومونه ؟ " فقالوا : هذا يوم عظيم : أنجى الله فيه موسى وقومه وغرق فرعون وقومه فصامه موسى شكرا فنحن نصومه فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " فنحن أحق وأولى بموسى منكم " فصامه رسول الله صلى الله عليه و سلم وأمر بصيامه

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودیوں کو عاشورہ کے دن کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ اس دن کی کیا خصوصیت ہے کہ تم روزہ رکھتے ہو؟ یہودیوں نے کہا کہ یہ بڑا عظیم دن ہے اسی دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی جماعت کو نجات دی اور فرعون اور اس کی قوم کو ڈبویا چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بطور شکر اس دن روزہ رکھا اس لئے ہم بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہارے مقابلے میں ہم موسیٰ سے زیادہ قریب اور (ان کی طرف سے بطور شکر روزہ رکھنے کے) زیادہ حقدار ہیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوم عاشورہ کو خود بھی روزہ رکھا اور دوسروں کو روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ (بخاری ومسلم)

یہ حدیث شیئر کریں