ہر مہینہ میں تین روزے رکھنے کی ترتیب
راوی:
اس موقع پر یہ بات جان لینی چاہئے کہ وہ تین روزے جو ہر مہینہ میں رکھنے مسنون ہیں بارہ طرح سے منقول ہیں ایک تو غیر معین کہ پورے مہینہ میں جب چاہے تین روزے رکھ لے، دوسرے یہ کہ مہینہ کے ابتدائی تین دنوں میں یعنی پہلی تاریخ سے تیسری تاریخ تک تیسرے یہ کہ مہینہ کے کسی بھی سنیچر، اتوار ، پیر کے دن ، چوتھے یہ کہ مہینہ کے کسی بھی منگل، بدھ، جمعرت کے دن، پانچویں یہ کہ ایام بیض یعنی تیرہیوں، چودہویں، پندرہویں تاریخ کو چھٹے یہ کہ ان روزوں میں پہلا روزہ پیر کے دن اور دو منگل اور بدھ کے دن، ساتویں یہ کہ ان روزوں میں پہلا روزہ جمعرات کے دن ہو اور دو روزے جمعہ اور ہفتہ کے دن آٹھویں یہ کہ پہلا روزہ نوچندا پیر کو اور دو روزے دو جمعراتوں کو ، نویں ایک نو چندی جمعرات کو اور دو دو شنبے کو، دسویں پیر اور جمعرات اور پھر اگلے ہفتے کا پیر، گیارہویں ہر عشرہ میں ایک روزہ، بارہویں مہینہ کے آخری دنوں میں تین روزے۔ یہ بات پہلے بتائی جا چکی ہے کہ بہتر اور اولیٰ یہی ہے کہ ایام بیض یعنی تیرہویں چودہویں اور پندرہویں تاریخ کو یہ روزے رکھے جائیں ویسے اختیار ہے کہ جب بھی اور جس طرح بھی یہ روزے رکھے جائیں ثواب بہر صورت حاصل ہو گا۔
ایک بات اور پورے سال میں مسنون روزوں کی تعداد اکیاون ہے تینتیس روزے تو یہی ہیں یعنی بحساب تین روزے فی مہینہ نو روزے ذی الحجہ کے مہینہ میں پہلی تاریخ سے نویں تاریخ تک، ایک دن یوم عاشورہ کا ایک روزہ عاشورہ سے ایک دن پہلے ایک دن بعد کا ایک روزہ شعبان کی پندرہویں تاریخ کا، اور چھ روزے شوال کے جو شش عید کے روزے کہلاتے ہیں۔