مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ نفل روزہ کا بیان ۔ حدیث 587

نفل روزہ توڑنے کے سلسلہ میں ضیافت عذر ہے یا نہیں ؟

راوی:

وعن أنس قال : دخل النبي صلى الله عليه و سلم على أم سليم فأتته بتمر وسمن فقال : " أعيدوا سمنكم في سقائه وتمركم في وعائه فإني صائم " . ثم قام إلى ناحية من البيت فصلى غير المكتوبة فدعا لأم سليم وأهل بيتها . رواه البخاري

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تشریف لے گئے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے گھی اور کھجور لائیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تناول فرمائیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اپنے گھی کو اس کی مشک میں اور کھجور کو اس کے برتن میں رکھ دو کیونکہ میں روزہ سے ہوں پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر کے ایک کونہ میں کھڑے ہو کر فرض کے علاوہ نماز پڑھنے لگے اور ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور ان کے گھر والوں کے لئے دعا فرمائی۔ (بخاری)

تشریح
بظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ضیافت کے باوجود اس لئے روزہ نہیں توڑا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جانتے تھے کہ اس سے ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا رنجیدہ نہیں ہوں گی۔
اس بارہ میں کہ آیا ضیافت نفل روزہ رکھنے والے کے لئے عذر ہے یا نہیں ؟ اگرچہ مشائخ کے ہاں اختلاف ہے لیکن صحیح بات یہی ہے کہ مہمان اور میزبان دونوں کے لئے ضیافت عذر ہے بشرطیکہ میزبان محض مہمان کے آنے اور اپنے ساتھ کھانا نہ کھانے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ خوش نہ ہو بلکہ ملول بھی ہو اسی طرح کھانے میں میزبان کی عدم شرکت سے مہمان کی دل شکنی اور اس کو ناگواری اور تنگی ہو حاصل یہ کہ اگر کھانے میں شرکت نہ کرنے سے دل شکنی ہوتی ہو تو ضیافت عذر ہے لہٰذا نفل روزہ توڑ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے مگر بعد میں اس روزہ کی قضا ضروری ہو گی اور اگر یہ معلوم ہو کہ دل شکنی نہیں ہو گی تو روزہ نہ توڑنا چاہئے ۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ روزہ دار مہمان کے لئے مستحب ہے کہ وہ میزبان اور اس کے اہل و عیال کے حق میں دعائے خیر کرے۔

یہ حدیث شیئر کریں