مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ نفل روزہ کا بیان ۔ حدیث 588

نفل روزہ توڑنے کے سلسلہ میں ضیافت عذر ہے یا نہیں ؟

راوی:

وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إذا دعي أحدكم إلى طعام وهو صائم فليقل : إني صائم " . وفي رواية قال : " إذا دعي أحدكم فليجب فإن كان صائما فليصل وإن كان مفطرا فيطعم " . رواه مسلم

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو کھانے پر بلایا جائے اور وہ روزہ دار ہو تو اسے چاہئے کہ یہ کہ دے کہ میں روزے سے ہوں اور ایک روایت میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا اگر تم میں سے کسی کی دعوت کی جائے تو اسے چاہئے کہ وہ دعوت قبول کر لے اور اگر وہ روزہ دار ہو تو دو رکعت نماز نفل پڑھ لے اور اگر روزہ دار نہ ہو تو اسے چاہئے کہ کھانے میں شریک ہو۔ (مسلم)

تشریح
اگر روزہ دار مہمان کے کھانا نہ کھانے کی وجہ سے میزبان کسی تشویش و پریشانی میں مبتلا ہو جائے یا کھانا نہ کھانے کی وجہ سے دشمنی یا نفرت پیدا ہو جانے کا خوف ہو تو اس صورت میں نفل روزہ توڑ دینا ہی واجب ہے۔ اور اگر مہمان یہ جانے کہ میزبان کھانا کھانے کی وجہ سے خوش تو ہو گا اور کھانا کھانے کی صورت میں وہ کسی تشویش و پریشانی میں مبتلا بھی نہیں ہو گا۔ تو اس صورت میں نفل روزہ توڑنا مستحب ہے اور اگر اس کے نزدیک دونوں امر برابر ہوں تو اس کے لئے افضل یہی ہے کہ وہ کہہ دے کہ انی صائم میں روزہ دار ہوں خواہ داعی کے یہاں جائے یا نہ جائے۔

یہ حدیث شیئر کریں