نفل روزہ توڑنے کے سلسلہ میں ضیافت عذر ہے یا نہیں ؟
راوی:
وعن الزهري عن عروة عن عائشة قالت : كنت أنا وحفصة صائمتين فعرض لنا طعام اشتهيناه فأكلنا منه فقالت حفصة : يا رسول الله إنا كنا صائمتين فعرض لنا طعام اشتهيناه فأكلنا منه . قال : " أقضيا يوما آخر مكانه " . رواه الترمذي وذكر جماعة من الحفاظ رووا عن الزهري عن عائشة مرسلا ولم يذكروا فيه عن عروة وهذا أصح
ورواه أبو داود عن زميل مولى عروة عن عروة عن عائشة
حضرت زہری رحمہ اللہ حضرت عروہ رحمہ اللہ سے اور وہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ایک دن میں اور حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا دونوں روزے سے تھیں کہ ہمارے سامنے کھانا لایا گیا ہمیں اس کو کھانے کی خواہش ہوئی چنانچہ ہم نے کھا لیا اب ہمارے بارہ میں کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس کے بدلہ بطور قضا ایک دن روزہ رکھو۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور حفاظ حدیث کی ایک ایسی جماعت کا ذکر کیا ہے جنہوں نے اس روایت کو زہری سے اور زہری نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بطریق ارسال نقل کیا ہے اس میں عروہ کا واسطہ مذکور نہیں ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ نیز اس روایت کو امام ابوداؤد نے زمیل رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے جو حضرت عروہ کے آزاد کردہ غلام تھے زمیل نے عروہ سے اور عروہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نقل کیا ہے۔
تشریح
چونکہ حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنا نفل روزہ توڑ دے تو اس کی قضا ضروری ہے اس لئے ان حضرات کی دلیل یہی حدیث ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ حکم کہ اس کے بدلہ بطور قضا ایک دن روزہ رکھو بطور وجوب ثابت ہوتا ہے لیکن شوافع کے ہاں چونکہ نفل روزہ کی قضا واجب نہیں ہے اس لئے ان کے نزدیک یہ حکم بطور استحباب ہے ۔ روایت کے آخری جزء زہری نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بطریق ارسال نقل کیا ہے لفظ " ارسال" اسناد سے "سقوط راوی" کے معنی میں ہے جس کا مطلب ہے " انقطاع واسطہ" یعنی پہلی روایت کے سلسلہ اسناد میں زہری رحمہ اللہ اور عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے درمیان عروہ کا جو واسطہ تھا وہ اس روایت میں نہیں ہے اگرچہ یہ اصطلاح اس معنی میں بھی استعمال ہوتی ہے مگر مشہور یہی ہے کہ مرسل اس حدیث کو کہتے ہیں کہ جسے تابعی صحابی کا واسطہ ذکر کئے بغیر نقل کرے۔