آنحضرت کو شب قدر کا علم اور اس کا نسیان
راوی:
عن عبادة بن الصامت قال : خرج النبي صلى الله عليه و سلم ليخبرنا بليلة القدر فتلاحى رجلان من المسلمين فقال : " خرجت لأخبركم بليلة القدر فتلاحى فلان وفلان فرفعت وعسى أن يكون خيرا لكم فالتمسوها في التاسعة والسابعة والخامسة " . رواه البخاري
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے تاکہ ہمیں شب قدر کے بارہ میں بتائیں کہ مسلمانوں میں سے دو شخص جھگڑنے لگے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں باہر آیا تھا کہ تمہیں شب قدر کے بارہ میں بتاؤں کہ وہ کون سی شب ہے مگر فلاں اور فلاں جھگڑنے لگے ۔ چنانچہ شب قدر کی تعیین اٹھا لی گئی اور شاید تمہارے لئے یہی بہتر ہو۔ لہٰذا تم شب قدر کو انتیسویں ، ستائیسویں اور پچیسویں میں تلاش کرو۔ (بخاری)
تشریح
بعض حضرات فرماتے ہیں کہ وہ دو اشخاص جو اس موقع پر جھگڑنے لگے تھے ان میں سے ایک کا نام عبداللہ ابن ابی حذروا اور دوسرے کا نام کعب بن مالک تھا۔
شب قدر کی تعیین اٹھا لی گئی ، کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں اشخاص کے جھگرنے کی وجہ سے شب قدر کے تعین کا علم میرے ذہن سے محو کر دیا گیا اس سے معلوم ہوا کہ آپس میں جھگڑنا اور منافرت و دشمنی اختیار کرنا بہت بری بات ہے اس کی وجہ سے آدمی برکات اور بھلائیوں سے محروم ہو جاتا ہے۔
شاید تمہارے لئے یہی بہتر ہو گا، کا مطلب یہ ہے کہ شب قدر کے بارہ میں جو متعین طور پر مجھے بتا دی گئی تھی اور اب وہ بھلا دی گئی ہے اگر میں تمہیں بتا دیتا تو تم لوگ صرف اسی شب پر بھروسہ کر کے بیٹھ جاتے، اب اس کے تعین کا علم نہ ہونے کی صورت میں نہ صرف یہ کہ تم لوگ اسے پانے میں بہت زیادہ سعی و کوشش کرو گے بلکہ عبادت و طاعت میں زیادتی بھی ہو گی جو ظاہر ہے کہ تمہارے حق میں بہتر ہی بہتر ہے۔