سورت فاتحہ کی اہمیت وفضیلت
راوی:
وعن أبي سعيد بن المعلى قال : كنت أصلي في المسجد فدعاني النبي صلى الله عليه و سلم فلم أجبه حتى صليت ثم أتيته . فقلت يا رسول الله إني كنت أصلي فقال ألم يقل الله ( استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم )
ثم قال لي : " ألا أعلمك أعظم سورة في القرآن قبل أن تخرج من المسجد " . فأخذ بيدي فلما أراد أن يخرج قلت له ألم تقل لأعلمنك سورة هي أعظم سورة من القرآن قال : ( الحمد لله رب العالمين )
هي السبع المثاني والقرآن العظيم الذي أوتيته " . رواه البخاري
حضرت سعید بن معلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بلایا، اس وقت میں نے کوئی جواب نہیں دیا، پھر (نماز سے فارغ ہو کر ) جب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ (اس وقت ) میں نماز پڑھ رہا تھا (اس لئے میں نے آپ کا جواب نہیں دیا تھا) آپ نے فرمایا کہ (کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ اللہ اور رسول کا جواب دو جب کہ رسول اللہ تمہیں بلائے اور ان کے حکم کی اطاعت کرو؟ پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قبل اس کے ہم اس مسجد سے نکلیں کیا میں تمہیں قرآن کی ایک بہت بڑی یعنی افضل سورت نہ سکھلاؤں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور جب ہم مسجد سے نکلنے کو ہوئے تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ کیا میں تمہیں قرآن کی ایک بہت بڑی سورت نہ سکھلاؤں؟ آپ نے فرمایا وہ سورت الحمد للہ رب العالمین ہے وہ سات آیتیں ہیں جو نماز میں بار بار پڑھی جاتی ہیں اور وہ قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا فرمایا گیا ہے۔
تشریح
ارشاد گرامی استجیبوا (جواب دو ) سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز کی حالت میں جواب دینے سے نماز فاسد نہیں ہوتی تھی جیسا کہ نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خطاب کرنے سے نماز فاسد نہ ہوئی۔
سورت فاتحہ کو ایک بہت بڑی سورت اس لئے فرمایا کہ وہ اللہ رب العزت کے نزدیک بڑی قدر رکھتی ہے اور الفاظ کے اختصار کے باوجود اس کے فوائد و معانی بہت زیادہ ہیں ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ سورت فاتحہ کے صرف ایک جزء کے تحت دین و دنیا کے تمام مقاصد آ جاتے ہیں بلکہ بعض عارفین نے تو یہ کہا ہے کہ جو کچھ سابق آسمانی کتابوں میں ہے وہ سب قرآن مجید میں ہے اور جو کچھ قرآن مجید میں ہے وہ سب سورت فاتحہ میں ہے اور جو کچھ سورت فاتحہ میں ہے وہ سب بسم اللہ میں ہے۔
وہ سات آیتیں ہیں۔ جن سے دراصل قرآن کریم کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے کہ آیت (وَلَقَدْ اٰتَيْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِيْمَ) 15۔ الحجر : 87) یعنی اے محمد! ہم نے آپ کو وہ سات آیتیں عطا کی ہیں جو نماز میں بار بار پڑھی جاتی ہیں یا یہ کہ ان سات آیتوں کی ثنا عطا کی گئی ہے ساتھ فصاحت اور اعجاز کے اور ان سات آیتوں سے مراد سورت فاتحہ ہے) اور دیا ہے ہم نے آپ کو قرآن عظیم ۔ یہاں قرآن عظیم سے بھی سورت فاتحہ مراد ہے کیونکہ سورت فاتحہ باعتبار معانی و فوائد کے قرآن کا جزو اعظم ہے اس لئے مبالغۃ فرمایا کہ یہ قرآن عظیم ہے۔