قرآن محض خوش آوازی کا نام نہیں
راوی:
وعن حذيفة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " اقرؤوا القرآن بلحون العرب وأصواتها وإياكم ولحون أهل العشق ولحون أهل الكتابين وسيجي بعدي قوم يرجعون بالقرآن ترجع الغناء والنوح لا يجاوز حناجرهم مفتونة قلوبهم وقلوب الذين يعجبهم شأنهم " . رواه البيهقي في شعب الإيمان
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ تم قرآن کریم اہل عرب کی طرح اور ان کی آوازوں کے مطابق پڑھو اہل عشق اور اہل کتاب کے طریق کے مطابق پڑھنے سے بچو میرے بعد ایک جماعت پیدا ہو گی جس کے افراد راگ اور نوحہ کی طرح آواز بنا کر قرآن پڑھیں گے۔ ان کا حال یہ ہو گا کہ قرآن ان کے حلق سے آگے نہیں بڑھے گا (یعنی ان کا پڑھنا قبول نہیں ہو گا) نیز ان کی قرأت سن کر خوش ہونے والوں کے قلوب فتنہ میں مبتلا ہوں گے۔ (بیہقی ، رزین)
تشریح
اہل عرب بلاتکلف اور برجستہ قرآن کریم پڑھتے ہیں۔ ان کی آواز ان کے دل کی امنگ سے ہم آہنگ ہوتی ہے ان کے سامنے موسیقی وغیرہ کی طرح کے قواعد نہیں ہوتے ، نہ وہ خواہ مخواہ کا تکلف کر کے اپنی آواز اور اپنا لہجہ بنا کر کوشش کرتے ہیں اسی لئے فرمایا گیا ہے کہ ہر مسلمان کو چاہئے وہ قرآن کریم اسی خالص لہجہ اور آواز میں پڑھے جو قرآن کی عظمت شان اور حقیقت کے مطابق ہے اور وہ اہل عرب کا لہجہ ہے۔ اس جملہ بلحون العرب واصواتہا میں لفظ اصوا تھا عطف تفسیر کے طور پر ہے۔
اہل عشق اور اہل کتاب کے طریقہ کے مطابق الخ سے یہ مراد ہے کہ جس طرح عشاق اور شعراء اپنی نظمیں وغزلیں اور اشعار آواز بنا کر اور ترنم و سر کے ساتھ پڑھتے ہں اور موسیقی اور راگ کے قواعد کی رعایت کرتے ہیں تم اس طرح قرآن کریم نہ پڑھو چونکہ یہود و نصاریٰ بھی اپنی کتابوں کو اسی طرح غلط طریقوں سے پڑھتے تھے اس لئے ان کی مانند پڑھنے سے بھی منع فرمایا گیا ہے۔
ان کے قلوب فتنہ میں مبتلا ہوں۔ کا مطلب یہ ہے کہ وہ حب دنیا میں مبتلا ہوں گے اور لوگ چونکہ ان کی آوازوں کو اچھا کہیں گے اس لئے وہ اور زیادہ گمراہی میں پھنسے ہوں گے اسی طرح ان کی آوازوں کو سن کر خوش ہونے والے اور ان کو اچھا کہنے والے بھی ایک غلط بات اور غلط کام کو اچھا سمجھنے کی وجہ سے ضلالت میں مبتلا ہوں گے۔