زمانہ رسالت میں قرآن کریم کس شکل میں تھا
راوی:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں قرآن کریم یوں تو پورا لکھا ہوا تھا لیکن مصحف میں اور یک جا نہیں تھا بلکہ متفرق طور پر لکھا ہوا تھا چنانچہ کچھ حصہ کسی کے پاس کھجور کی شاخوں پر کچھ حصہ کسی کے پاس پتھروں کے ٹکڑوں پر کچھ حصہ کسی کے پاس جھلی کے ٹکڑوں پر اور کچھ حصہ کسی کے پاس چوڑی ہڈیوں پر لکھا ہوا تھا کیونکہ قرآن کریم جیسے جیسے نازل ہوتا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے کا تبوں سے مذکورہ بالا چیزوں میں جو چیز بھی دستیاب ہوتی اس پر قلم بند کرا لیا کرتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورہ سے جیسا کہ اوپر تفصیل بیان کی گئی قرآن کے ان متفرق حصوں کو یکجا اور جمع کیا لہٰذا یہ ایسا ہی ہوا کہ وہ اوراق کہ جن میں قرآن لکھا ہوا متفرق طور پر پائے جائیں اور پھر انہیں جمع کر دیا جائے۔
اسی طرح آج کل قرآن کریم سورتوں کی جس ترتیب کے ساتھ ہمارے سامنے ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں سورتوں کی ترتیب یہ نہیں تھی بلکہ سورتوں کی یہ ترتیب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد صحابہ کے اجتہاد سے عمل میں آئی ہے۔ ہاں آیتوں کی ترتیب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے رہی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق ہی عمل میں آ گئی تھی اور اس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ جب حضرت جبرائیل علیہ السلام حسب موقع کوئی آیت لاتے تو یہ بھی فرما دیتے کہ اس آیت کو فلاں سورت میں فلاں آیت سے پہلے اور فلاں آیت کے بعد رکھا جائے چنانچہ لوح محفوظ میں قرآن کریم آیتوں کی اس ترتیب کے مطابق لکھا ہوا ہے۔ وہاں سے قرآن کریم آسمان دنیا پر لایا گیا۔ پھر وہاں سے حسب موقع اور حسب ضرورت حضرت جبرائیل علیہ السلام سورتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لاتے تھے۔ حاصل یہ کہ نزول قرآن کی ترتیب وہ نہیں تھی جو موجودہ ترتیب تلاوت ہے حضرت جبرائیل علیہ السلام ہر سال رمضان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک مرتبہ پورے قرآن کا دور ترتیب نزول کے مطابق کیا کرتے تھے اور جس سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا سے تشریف لے گئے اس سال کے رمضان میں انہوں نے دو مرتبہ دور کیا۔
لم اجدھا مع احد غیرہ۔ کا مطلب یہ ہے کہ سورت براۃ کا آخری حصہ میں نے ابوخزیمہ کے علاوہ اور کسی کے پاس لکھا ہوا نہیں پایا ویسے تو جس طرح پورا پورا قرآن حفاظ صحابہ کے سینوں میں محفوظ تھا اسی طرح سورت براۃ کا یہ آخری حصہ بھی ان کے سینوں میں محفوظ تھا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ ہی میں صحابہ مثلاً ابی بن کعب، معاذ بن جبل ، زید بن ثابت، اور ابودرداء وغیرہ رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ نے پورا کلام اللہ یاد کر لیا تھا۔
حدیث کے آخری جملوں کا مطلب یہ ہے کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم کے مطابق جب قرآن کریم کو جمع کر لیا اور اس پر تمام صحابہ کا اتفاق بھی ہو گیا تو اسے متعدد صحیفوں یعنی اجزاء کی شکل میں منتقل کیا گیا ابھی تک وہ ایک مصحف کی شکل اختیار نہیں کر پایا تھا چنانچہ وہ صحیفے یا اجزاء حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رہتے تھے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد یہ صحیفے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس کی ان کی زندگی بھر رہے پھر ان کے بعد ان کی صاحبزادی حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آ گئے۔ اب حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان صحیفوں یعنی پورے قرآن کریم کو ایک مصحف میں جمع کیا اور کئی مصحف لکھا کر مملکت اسلام کے کئی شہروں میں بھیجے جیسا کہ آئندہ حدیث میں اس کا ذکر آئے گا۔