صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ خرید وفروخت کے بیان ۔ حدیث 2105

عرایا کی تفسیر امام مالک نے کہا عریہ یہ ہے کہ ایک شخص کسی کو کھجور کا درخت دیدے پھر اس کے بار بار آنے سے اس کو تکلیف ہو تو اس کو اجازت دی گئی ہے کہ خشک کھجور دے کر اس درخت کو خرید لے اور ابن ادریس نے کہا عریہ تمر کے عوض دست بدست ناپ کر ہوتا ہے اندازے سے نہیں ہوتا اور سہل بن ابی حثمہ کا قول اس کی تائید کرتا ہے کہ عریہ وسقوں سے ناپ تول کر ہوتا ہے اور ابن اسحق نے اپنی احادیث میں نافع سے انہوں نے ابن عمر سے روایت کی کہ عرایا یہ ہے کہ ایک شخص اپنے مال میں سے کھجور کا ایک یا دو درخت دیدے یزید نے سفیان بن حسین سے نقل کیا کہ عرایا کھجور کے درخت ہو رہے تھے جو مسکینوں کو دئے جاتے تھے مگر وہ اس کے پکنے کا انتظار نہ کر سکتے تھے تو انہیں اس بات کی اجازت دی گئی کہ جس قدر کھجور کے عوض چاہیں بیچ ڈالیں

راوی: محمد بن عبداللہ , موسیٰ بن عقبہ , ابن عمر , زید بن ثابت

حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ مُقَاتِلٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا مُوسَی بْنُ عُقْبَةَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ فِي الْعَرَايَا أَنْ تُبَاعَ بِخَرْصِهَا کَيْلًا قَالَ مُوسَی بْنُ عُقْبَةَ وَالْعَرَايَا نَخَلَاتٌ مَعْلُومَاتٌ تَأْتِيهَا فَتَشْتَرِيهَا

محمد بن عبداللہ ، موسیٰ بن عقبہ، ابن عمر، زید بن ثابت سے روایت ہے کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرایا میں اس بات کی اجازت دی کہ ناپ کر اندازہ کر کے بیچ دے موسیٰ بن عقبہ نے کہا عرایا ان معین درختوں کو کہتے ہیں جس کے پاس آکر تم خرید لو۔

Narrated Ibn 'Umar from Zaid bin Thabit:
Allah's Apostle allowed the sale of 'Araya by estimating the dates on them for measured amounts of dried dates. Musa bin 'Uqba said, "Al- 'Araya were distinguished date palms; one could come and buy them (i.e. their fruits)."
________________________________________

یہ حدیث شیئر کریں