عرایا کی تفسیر امام مالک نے کہا عریہ یہ ہے کہ ایک شخص کسی کو کھجور کا درخت دیدے پھر اس کے بار بار آنے سے اس کو تکلیف ہو تو اس کو اجازت دی گئی ہے کہ خشک کھجور دے کر اس درخت کو خرید لے اور ابن ادریس نے کہا عریہ تمر کے عوض دست بدست ناپ کر ہوتا ہے اندازے سے نہیں ہوتا اور سہل بن ابی حثمہ کا قول اس کی تائید کرتا ہے کہ عریہ وسقوں سے ناپ تول کر ہوتا ہے اور ابن اسحق نے اپنی احادیث میں نافع سے انہوں نے ابن عمر سے روایت کی کہ عرایا یہ ہے کہ ایک شخص اپنے مال میں سے کھجور کا ایک یا دو درخت دیدے یزید نے سفیان بن حسین سے نقل کیا کہ عرایا کھجور کے درخت ہو رہے تھے جو مسکینوں کو دئے جاتے تھے مگر وہ اس کے پکنے کا انتظار نہ کر سکتے تھے تو انہیں اس بات کی اجازت دی گئی کہ جس قدر کھجور کے عوض چاہیں بیچ ڈالیں
راوی: محمد بن عبداللہ , موسیٰ بن عقبہ , ابن عمر , زید بن ثابت
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ مُقَاتِلٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا مُوسَی بْنُ عُقْبَةَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ فِي الْعَرَايَا أَنْ تُبَاعَ بِخَرْصِهَا کَيْلًا قَالَ مُوسَی بْنُ عُقْبَةَ وَالْعَرَايَا نَخَلَاتٌ مَعْلُومَاتٌ تَأْتِيهَا فَتَشْتَرِيهَا
محمد بن عبداللہ ، موسیٰ بن عقبہ، ابن عمر، زید بن ثابت سے روایت ہے کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرایا میں اس بات کی اجازت دی کہ ناپ کر اندازہ کر کے بیچ دے موسیٰ بن عقبہ نے کہا عرایا ان معین درختوں کو کہتے ہیں جس کے پاس آکر تم خرید لو۔
Narrated Ibn 'Umar from Zaid bin Thabit:
Allah's Apostle allowed the sale of 'Araya by estimating the dates on them for measured amounts of dried dates. Musa bin 'Uqba said, "Al- 'Araya were distinguished date palms; one could come and buy them (i.e. their fruits)."
________________________________________