تسبیحات جنت کے درخت ہیں
راوی:
وعن ابن مسعود قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لقيت إبراهيم ليلة أسري بي فقال : يا محمد أقرئ أمتك مني السلام وأخبرهم أن الجنة طيبة التربة عذبة الماء وأنها قيعان وأن غراسها سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر " . رواه الترمذي . وقال : هذا حديث حسن غريب إسنادا
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس رات مجھے معراج کی سعادت نصیب ہوئی ہے اس رات میں ساتوں آسمانوں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے میری ملاقات ہوئی جو بیت المعمور سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے انہوں نے مجھ سے کہا ۔ محمد! اپنی امت کو میرا سلام کہئے گا اور انہیں بتا دیجئے گا کہ جنت کی مٹی پاکیزہ ہے اور وہ مٹی کی بجائے مشک وزعفران ہے اس کا پانی شیریں ہے اس کا میدان پٹ پڑ (یعنی ہموار اور درختوں سے خالی ہے) اور اس کے درخت ہیں سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ و اللہ اکبر امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ روایت باعتبار اسناد کے غریب ہے۔
تشریح
اس امت مرحومہ کی شان محبوبی اور شان عظمت کے صدقے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطہ سے اسے سلام کہلایا اور اس طرح اس امت سے اپنے تعلق کا اظہار کیا اس لئے اس امت کے ایک ایک فرد کے لئے یہی لائق ہے کہ اس حدیث کے ذریعہ جب بھی حضرت ابراہیم کا سلام سنایا جائے یا پڑھاجائے تو یہ کہا جائے وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
وان غراسہا سبحان اللہ (اور اس کے درخت ہیں سبحان اللہ الخ) کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت کو آگاہ کر دیجئے گا کہ یہ کلمات اور انہیں کی طرح دوسرے کلمات ذکر پڑھنے سے آدمی جنت میں داخل ہوتا ہے اور چونکہ جنت میں بہت سے درخت لگائے جاتے ہیں بایں طور کہ ہر کلمے کے پڑھنے سے ایک درخت لگتا ہے اس لئے ان کلمات کو جو شخص جتنا زیادہ پڑھے گا اس کی طرف سے جنت میں اتنے ہی زیادہ درخت لگائے جائیں گے۔
یہ گویا اس طرف اشارہ ہے کہ ان کلمات کو پڑھنے والا جنت کی پر سکون اور پر راحت فضا اور وہاں کے سرور آمیز اطمینان وچین کا حقدار ہو گا اور وہاں یہ کلمات درخت کی شکل میں لازوال سکون آمیز حیات کے ضامن ہوں گے۔