نماز کسوف کے وقت جنت دوزخ کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کیا پیش کیا گیا ۔
راوی: ابوبکر بن ابی شیبہ , عبداللہ ابن نمیر , ح , عبدالملک , عطاء , جابر بن عبداللہ
حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ عَنْ عَطَائٍ عَنْ جَابِرٍ قَالَ انْکَسَفَتْ الشَّمْسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ مَاتَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ النَّاسُ إِنَّمَا انْکَسَفَتْ لِمَوْتِ إِبْرَاهِيمَ فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّی بِالنَّاسِ سِتَّ رَکَعَاتٍ بِأَرْبَعِ سَجَدَاتٍ بَدَأَ فَکَبَّرَ ثُمَّ قَرَأَ فَأَطَالَ الْقِرَائَةَ ثُمَّ رَکَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّکُوعِ فَقَرَأَ قِرَائَةً دُونَ الْقِرَائَةِ الْأُولَی ثُمَّ رَکَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّکُوعِ فَقَرَأَ قِرَائَةً دُونَ الْقِرَائَةِ الثَّانِيَةِ ثُمَّ رَکَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّکُوعِ ثُمَّ انْحَدَرَ بِالسُّجُودِ فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ قَامَ فَرَکَعَ أَيْضًا ثَلَاثَ رَکَعَاتٍ لَيْسَ فِيهَا رَکْعَةٌ إِلَّا الَّتِي قَبْلَهَا أَطْوَلُ مِنْ الَّتِي بَعْدَهَا وَرُکُوعُهُ نَحْوًا مِنْ سُجُودِهِ ثُمَّ تَأَخَّرَ وَتَأَخَّرَتْ الصُّفُوفُ خَلْفَهُ حَتَّی انْتَهَيْنَا وَقَالَ أَبُو بَکْرٍ حَتَّی انْتَهَی إِلَی النِّسَائِ ثُمَّ تَقَدَّمَ وَتَقَدَّمَ النَّاسُ مَعَهُ حَتَّی قَامَ فِي مَقَامِهِ فَانْصَرَفَ حِينَ انْصَرَفَ وَقَدْ آضَتْ الشَّمْسُ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَإِنَّهُمَا لَا يَنْکَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ مِنْ النَّاسِ وَقَالَ أَبُو بَکْرٍ لِمَوْتِ بَشَرٍ فَإِذَا رَأَيْتُمْ شَيْئًا مِنْ ذَلِکَ فَصَلُّوا حَتَّی تَنْجَلِيَ مَا مِنْ شَيْئٍ تُوعَدُونَهُ إِلَّا قَدْ رَأَيْتُهُ فِي صَلَاتِي هَذِهِ لَقَدْ جِيئَ بِالنَّارِ وَذَلِکُمْ حِينَ رَأَيْتُمُونِي تَأَخَّرْتُ مَخَافَةَ أَنْ يُصِيبَنِي مِنْ لَفْحِهَا وَحَتَّی رَأَيْتُ فِيهَا صَاحِبَ الْمِحْجَنِ يَجُرُّ قُصْبَهُ فِي النَّارِ کَانَ يَسْرِقُ الْحَاجَّ بِمِحْجَنِهِ فَإِنْ فُطِنَ لَهُ قَالَ إِنَّمَا تَعَلَّقَ بِمِحْجَنِي وَإِنْ غُفِلَ عَنْهُ ذَهَبَ بِهِ وَحَتَّی رَأَيْتُ فِيهَا صَاحِبَةَ الْهِرَّةِ الَّتِي رَبَطَتْهَا فَلَمْ تُطْعِمْهَا وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْکُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ حَتَّی مَاتَتْ جُوعًا ثُمَّ جِيئَ بِالْجَنَّةِ وَذَلِکُمْ حِينَ رَأَيْتُمُونِي تَقَدَّمْتُ حَتَّی قُمْتُ فِي مَقَامِي وَلَقَدْ مَدَدْتُ يَدِي وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَتَنَاوَلَ مِنْ ثَمَرِهَا لِتَنْظُرُوا إِلَيْهِ ثُمَّ بَدَا لِي أَنْ لَا أَفْعَلَ فَمَا مِنْ شَيْئٍ تُوعَدُونَهُ إِلَّا قَدْ رَأَيْتُهُ فِي صَلَاتِي هَذِهِ
ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ ابن نمیر، ح ، عبدالملک، عطاء، حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ جس دن ابراہیم بن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوئی اس دن سورج گرہن ہوا تو لوگوں نے کہا کہ یہ گرہن ابراہیم کی موت کی وجہ سے ہوا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور لوگوں کو چھ رکوعات اور چار سجدات کے ساتھ (دو رکعت) پڑھائیں، شروع میں تکبیر کہی پھر خوب لمبی قرأت کی پھر اسی طرح رکوع کیا جس طرح قیام کیا پھر رکوع سے سر اٹھایا تو دوسری قرأت سے کم قرأت کی پھر کھڑے ہونے کی مقدار رکوع کیا پھر رکوع سے سر اٹھایا پھر سجود کے لئے جھکے تو دو سجدے کئے پھر کھڑے ہوئے تو اسی طرح ایک رکعت تین رکوعات کے ساتھ ادا کی اس طرح کہ اس میں ہر بعد والا رکوع اپنے سے پہلے والے رکوع سے کم ہوتا اور ہر رکوع سجدہ کے برابر تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیچھے ہٹے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیچھے والی صفیں بھی پیچھے ہوئیں یہاں تک کہ ہم عورتوں کے قریب آگئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگے بڑھے اور صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ آگے بڑھے یہاں تک کہ اپنی جگہ پر جا کھڑے ہوئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے اور سورج کھل چکا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں اور یہ لوگوں میں سے کسی کی موت کی وجہ سے بے نور نہیں ہوتے، ابوبکر نے کہا کسی بشر کی موت کی وجہ سے جب تم اس میں کوئی چیز دیکھو تو نماز پڑھو یہاں تک کہ وہ روشن ہو جائے، ہر وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے میں نے اپنی اس نماز میں اسے دیکھا ہے، میرے پاس دوزخ لائی گئی یہ اس وقت تھا جب تم نے مجھے اس کی لپٹ کے خوف سے پیچھے ہوتے دیکھا یہاں تک کہ میں نے اس میں نو کیلی لکڑی والے کو دیکھا جو اپنی انتڑیوں کو آگ میں کھینچتا تھا یہ حاجیوں کے کپڑے وغیرہ آنکڑے میں ڈال کر چرایا کرتا تھا اگر کسی کو اطلاع ہو جاتی تو کہتا کہ وہ آنکڑے میں الجھ گئی ہے اور اگر اسے پتہ نہ چلتا تو وہ لے کر چلا جاتا اور یہاں تک کہ اس میں میں نے ایک بلی والی کو دیکھا جس نے اس کو باندھ دیا تھا اور نہ تو اس کو کھلاتی اور نہ چھوڑتی تھی کہ وہ زمین میں سے کیڑے مکوڑے کھالے یہاں تک کہ مر گئی، پھر میرے پاس جنت لائی گئی یہ اس وقت جب تم نے مجھے آگے بڑھتے ہوئے دیکھا یہاں تک کہ میں اپنی جگہ پر کھڑا ہوگیا اور میں نے اپنا ہاتھ دراز کر کے اس کا پھل لینا چاہا تاکہ تمہیں دکھاؤں پھر میرا ارادہ ہوا کہ ایسا نہ کروں ہر وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے میں نے اس کی اپنی اس نماز میں دیکھا ہے۔
Jabir reported that the sun eclipsed during the lifetime of the Messenger of Allah (may peace be upon him) on that very day when Ibrahim (the Prophet's son) died. The Apostle of Allah (may peace be upon him) stood up and led people in (two rak'ahs of) prayer with six ruku's and four prostrations. He commenced (the prayer) with takbir (Allah-o-Akbar) and then recited and prolonged his recital. He then bowed nearly the (length of time) that he stood up. He then raised his head from the ruku' and recited but less than the first recital. He then bowed (to the length of time) that he stood up. He then raised his head from the ruku' and again recited but less than the second recital. He then bowed (to the length of time) that he stood up. He then lifted his head from the ruku'. He then fell in prostration and observed two prostrations. He stood up and then bowed, observing six ruku's like it, without (completing) the rak'ah in them, except (this difference) that the first (qiyam of ruku') was longer than the later one, and the ruku' was nearly (of the same length) as prostration. He then moved backward and the rows behind him also moved backward till we reached the extreme (Abu Bakr said: till he reached near the women) He then moved forward and the people also moved forward along with him till he stood at his (original) place (of worship). He then completed the prayer as it was required to complete and the sun brightened and he said: O people! verily the sun and the moon are among the signs of Allah and they do not eclipse at the death of anyone among people (Abu Bakr said: On the death of any human being). So when you see anything like it (of the nature of eclipse), pray till it is bright. There is nothing which you have been promised (in the next world) but I have seen it in this prayer of mine. Hell was brought to me as you saw me moving back on account of fear lest its heat might affect me; and I saw the owner of the curved staff who dragged his intestines in the fire, and he used to steal (the belongings) of the pilgrims with his curved staff. If he (the owner of the staff) became aware, he would say: It got (accidentally) entangled in my curved staff, but if he was unaware of that, he would take that away. I also saw in it (in Hell) the owner of a cat whom she had tied and did not feed her nor set her free so that she could eat the creatures of the earth, till the cat died of starvation. Paradise was brought to me, and it was on that occasion that you saw me moving forward till I stood at my place (of worship). I stretched my hand as I wanted to catch hold of its fruits so that you may see them. Then I thought of not doing it. Nothing which you have been promised was there that I did not see in this prayer of mine.