باوجود قدرت کے حج نہ کرنے والے کے لئے وعید
راوی:
وعن علي رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من ملك زادا وراحلة تبلغه إلى بيت الله ولم يحج فلا عليه أن يموت يهوديا أو نصرانيا وذلك أن الله تبارك وتعالى يقول : ( ولله على الناس حج البيت من استطاع إليه سبيلا )
رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب . وفي إسناده مقال وهلال بن عبد الله مجهول والحارث يضعف في الحديث
حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ جو شخص زاد راہ اور سواری کا مالک ہو جو اسے بیت اللہ تک پہنچا دے (یعنی جو شخص حج کرنے کی استطاعت و قدرت رکھتا ہو) اور (پھر بھی ) وہ حج نہ کرے تو اس کے یہودی یا نصرانی ہو کر مر جانے (اور بے حج مر جانے) میں کوئی فرق نہیں ہے اور یہ (یعنی حج کے لئے زاد راہ و سواری کا شرط ہونا اور اس عظیم عبادت کو ترک کر دینے پر مذکورہ بالا وعید) اس لئے ہے کہ اللہ بزرگ و برتر فرماتا ہے۔ آیت (وَلِلّٰهِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْ تَ طَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا) 3۔ ال عمران : 97)۔ اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے لوگوں پر کعبہ کا حج کرنا ضروری ہے جو وہاں جا سکتا ہو۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند محل کلام ہے ہلال ابن عبداللہ مجہول ہیں اور حارث روایت حدیث میں ضعیف شمار کئے جاتے ہیں۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے پاس اتنا روپیہ ہو کہ وہ سفر حج میں جانے اور آنے کے اخراجات کے لئے کافی بھی ہو جائے اور اپنے اہل و عیال کو بھی اس قدر دے جائے جو اس کی واپسی تک ان کی ضروریات زندگی کو پورا کر سکے نیز اس کے پاس ایسی سواری ہو جو بیت اللہ تک پہنچا سکے، چاہے وہ اپنی ہو یا کرایہ کی ہو اور وہ اتنی استطاعت و قدرت کے باوجود بھی حج نہ کرے اور مر جائے تو وہ یہودی و نصرانی ہو کر مرتا ہے۔
اب اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر اس نے استطاعت و قدرت کے باوجود حج اس لئے نہیں کیا کہ وہ اس کی فرضیت ہی کا منکر ہو تو پھر یہودی اور نصرانی کی اس مشابہت کا تعلق کفر سے ہو گا۔ یعنی جس طرح یہودی و نصرانی کفر کی حالت میں مرتے ہیں، اسی طرح وہ بھی کفر کی حالت میں مرے گا اور اگر فرضیت کا منکر ہوئے بغیر حج نہ کرے تو اس مشابہت کا تعلق گناہ سے ہو گا کہ یہودی و نصرانی جتنے سخت گناہ کی حالت میں مرتے ہیں وہ بھی اتنے ہی شدید گناہ کا بار لئے موت کی نذر ہو گا۔ اگرچہ بعض علماء کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ وعید از راہ تغلیظ و تشدید یعنی ترک حج کے گناہ کی شدت و ہیبت ناکی کے اظہار کے لئے فرمائی ہے۔ لیکن بہر نوع ترک حج ایک ایسا گناہ ہے اور اتنا شدید جرم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اتنی شدید اور سخت وعید بیان فرمانی پڑی کہ حج نہ کرنے والا یہودی یا نصرانی ہو کر مرتا ہے العیاذ باللہ منہ۔
الیہ سبیلا کے بعد آیت کا بقیہ حصہ یہ ہے آیت (وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِىٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ) 3۔ آل عمران : 97)۔ اور کوئی کفر کرے (اور طاعات و عبادات نہ کر کے) اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا کفران کرے تو اللہ تعالیٰ عالم کے لوگوں سے بے نیاز ہے۔ یعنی لوگ طاعت و عبادت کریں یا نہ کریں اس سے اللہ تعالیٰ کا کوئی نقصان نہیں ، نفع نقصان تو انہیں لوگوں کو ہے کہ اگر طاعت و عبادت کریں تو فلاح و نجات پائیں گے اور اگر نہ کریں گے تو خسران و عذاب میں مبتلا ہوں گے ۔
بظاہر تو معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ پوری آیت پڑھی ہو گی کیونکہ استدلال تو پوری ہی آیت سے ہوتا ہے لیکن راوی نے الیہ سبیلا ہی تک اس آیت کو نقل کیا۔