حج میں لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے اجتناب کرو
راوی:
عن ابن عباس قال : كان أهل اليمن يحجون فلا يتزودون ويقولون : نحن المتوكلون فإذا قدموا مكة سألوا الناس فأنزل الله تعالى : ( وتزودوا فإن خير الزاد التقوى )
رواه البخاري
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ یمن والے جب حج کرنے آئے تو زاد راہ ساتھ نہیں لائے تھے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہم تو توکل کرنے والے ہیں اور پھر جب وہ مکہ میں آتے تو لوگوں سے مانگتے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع کرنے کے لئے یہ آیت نازل فرمائی (ڼوَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى) 2۔ البقرۃ : 197) اور جب حج کو جانے لگو تو زاد راہ ضرور ساتھ لے لیا کرو کیونکہ سب سے بڑی بات اور خوبی زاد راہ میں گداگری سے بچنا ہے۔ (بخاری)
تشریح
ان لوگوں نے توکل کو " زارد راہ " کا درجہ دے دیا تھا ور یہ سمجھتے تھے کہ حج کے ضروری اخراجات کی فراہمی سے قطع نظر توکل بہترین چیز ہے لیکن حقیقت میں نہ تو وہ توکل تھا اور نہ یہ کوئی اچھی بات تھی کہ حج کے لئے مکہ مکرمہ پہنچ کر لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلائے جائیں جو انسانی شرف و عظمت کے خلاف ہے اس لئے فرمایا گیا ہے کہ سب سے بڑی بات اور خوبی یہ ہے کہ زاد راہ اپنے ساتھ رکھو اور گداگری سے بچو۔
اس بارہ میں مسئلہ یہ ہے کہ حج کے ضروری اخراجات ساتھ رکھے بغیر اس شخص کے لئے جانا درست نہیں ہے جس کے نفس میں توکل کی قوت نہ ہو اور اس کو غالب گمان ہو کہ میں شکایت و بے صبری اور گداگری میں مبتلا ہو کر خود بھی پوری طمانینت اور سکون کے ساتھ افعال حج ادا نہ کر سکوں گا اور دوسروں کو بھی پریشانی میں مبتلا کروں گا۔
آیت اور حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ اتنا وسائل اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں ہے چنانچہ کاملین کے نزدیک یہ افضل ہے کہ ہاں اگر کوئی بغیر اسباب کے صرف توکل ہی کو اختیار کرے تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے بشرطیکہ اپنے عزم و ارادہ پر مستحکم و مضبوط رہ کر صبر کر سکے اور ایسا کوئی بھی کام نہ کرے جو حقیقی توکل کے منافی ہو۔