استلام حجر اسود اور طواف کی فضیلت
راوی:
وعن عبيد بن عمير : أن ابن عمر كان يزاحم على الركنين زحاما ما رأيت أحدا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه و سلم يزاحم عليه قال : إن أفعل فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " إن مسحهما كفارة للخطايا " وسمعته يقول : " من طاف بهذا البيت أسبوعا فأحصاه كان كعتق رقبة " . وسمعته يقول : " لا يضع قدما ولا يرفع أخرى إلا حط الله عنه بها خطيئة وكتب له بها حسنة " . رواه الترمذي
حضرت عبید بن عمیر تابعی کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں رکن یعنی حجر اسود اور رکن یمانی کو ہاتھ لگانے میں لوگوں پر جس طرح سبقت حاصل کرتے تھے اس طرح میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی بھی صحابی کو ان دونوں رکن میں سے کسی پر سبقت کرتے ہوئے نہیں دیکھا، نیز حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر میں سبقت حاصل کرنے کی کوشش کروں تو مجھے مت روکو، کیونکہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ان دونوں رکن کو ہاتھ لگانا گناہوں کے لئے کفارہ ہے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص خانہ کعبہ کا سات مرتبہ طواف کرے اور اس کی محافظت کرے (یعنی طواف کے واجبات و سنن اور آداب بجا لائے تو اس کا ثواب غلام آزاد کرنے کے ثواب کے برابر ہے۔ نیز میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے۔ (طواف کرتے وقت) جب بھی کوئی قدم رکھتا ہے اور پھر اسے اٹھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ قدم رکھنے کے عوض تو اس کا گناہ ختم کرتا ہے اور قدم اٹھانے کے عوض اس کے لئے ایک نیکی لکھتا ہے (یعنی طواف کرنے والے کا جب قدم رکھا جاتا ہے تو اس سے گناہ دور کر دیا جاتا ہے اور جب قدم اٹھتا ہے تو اس کی نیکیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے، اس طرح پورے طواف میں اس کے گناہ ختم ہوتے رہتے ہیں اور نیکیوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے)۔ (ترمذی)
تشریح
" سبقت حاصل کرنے " کا مطلب یہ ہے کہ وہ حجر اسود اور رکن یمانی کے استلام کے لئے لوگوں کے ہجوم کو چیر پھاڑ کر آگے بڑھتے اور ان دونوں رکن کو ہاتھ لگاتے، لیکن ان کی یہ سبقت اس طرح ہوتی تھی کہ لوگوں کو کوئی ایذاء نہیں پہنچتی تھی، چنانچہ اگر کوئی شخص استلام کے لئے لوگوں کو دھکیلتا، گراتا ان دونوں رکن تک پہنچے اور لوگ اس کی وجہ سے ایذاء محسوس کریں تو وہ گنہگار ہو گا، لہٰذا ہجوم کی سورت میں ہاتھ کے ذریعہ دور سے اشارہ کر لینے ہی پر اکتفا کر لینا چاہئے۔
" سات مرتبہ طواف کرے" میں تین احتمال ہیں ایک تو یہ کہ سات شوط کرے یعنی خانہ کعبہ کے گرد سات چکر لگائے اور یہ معلوم ہی ہے کہ سات شوط (چکر) کا ایک طواف ہوتا ہے، دوسرے یہ کہ سات طواف کرے اور تیسرے یہ کہ سات روز تک طواف کرے۔