مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ وقوف عرفات کا بیان ۔ حدیث 1147

مزدلفہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کی قبولیت اور ابلیس کا واویلا

راوی:

وعن عباس بن مرداس أن رسول الله صلى الله عليه و سلم دعا لأمته عشية عرفة بالمغفرة فأجيب : " إني قد غفرت لهم ما خلا المظالم فإني آخذ للمظلوم منه " . قال : " أي رب إن شئت أعطيت المظلوم من الجنة وغفرت للظالم " فلم يجب عشيته فلما أصبح بالمزدلفة أعاد الدعاء فأجيب إلى ما سأل . قال : فضحك رسول الله صلى الله عليه و سلم أو قال تبسم فقال له أبو بكر وعمر : بأبي أنت وأمي إن هذه لساعة ما كنت تضحك فيها فما الذي أضحكك أضحك الله سنك ؟ قال : " إن عدو الله إبليس لما علم أن الله عز و جل قد استجاب دعائي وغفر لأمتي أخذ التراب فجعل يحشوه على رأسه ويدعو بالويل والثبور فأضحكني ما رأيت من جزعه " . رواه ابن ماجه وروى البيهقي في كتاب البعث والنشور نحوه

حضرت عباس بن مرد اس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرفہ کی شام کو اپنی امت کے لئے بخشش کی دعا مانگی، جو قبول کی گئی اور حق تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو بخش دیا۔ علاوہ بندوں کے حقوق کے کہ میں ظالم سے مظلوم کا حق لوں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرض کیا کہ میرے پروردگار! اگر تو چاہے تو مظلوم کو اس حق کے بدلہ میں کہ جو ظالم نے کیا ہے جنت کی نعمتیں عطا فرما دے اور ظالم کو بھی بخش دے۔ مگر عرفہ کی شام کو یہ دعا قبول نہیں کی گئی، جب مزدلفہ میں صبح ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر وہی دعا کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو چیز مانگی وہ عطا فرما دی گئی راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہنسے یا راوی نے یہ کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرائے۔ (یہ دیکھ کر) حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میرا باپ اور میری ماں آپ پر قربان! یہ ایسا وقت ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہنستے نہیں تھے۔ (یعنی یہ وقت ہنسنے کا تو نہیں ہے) پھر کس چیز نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہنسایا۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دانتوں کو ہنستا رکھے (یعنی اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہمیشہ خوش و خرم رکھے) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دشمن اللہ ابلیس کو جب یہ معلوم ہوا کہ اللہ بزرگ و برتر نے میری دعا قبول کر لی ہے اور میری امت کو بخش دیا تو اس نے مٹی لی اور اسے اپنے سر پر ڈالنے لگا اور واویلا کرنے اور چیخنے چلانے لگا چنانچہ اس کی بدحواسی اور اضطراب نے مجھے ہنسنے پر مجبور کر دیا۔ (ابن ماجہ، بیہقی)

تشریح
چونکہ اس حدیث کے ظاہری مفہوم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امت کو مغفرت عام سے نوازاس گیا ہے کہ حقوق اللہ بھی بخش دئیے ہیں اور حقوق العباد بھی اس لئے بہتر یہ ہے کہ حدیث کے مفہوم میں یہ قید لگا دی جائے کہ اس مغفرت عام کا تعلق ان لوگوں کے ساتھ جو اس سال حج کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے، یا یہ بات اس شخص کے حق میں ہے جس کا حج مقبول ہو بایں طور کہ اس کے حج میں فسق و فجور کی کوئی بات نہ ہو۔
یا پھر یہ کہ مفہوم اس ظالم پر محمول ہے جس کو توبہ کی توفیق ہوئی اور اس نے صدق نیت اور اخلاص کے ساتھ توبہ کی مگر حق کی واپسی سے عاجز و معذور رہا۔ پھر یہ کہ رحمت الٰہی جسے چاہے اپنے دامن میں چھپا سکتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا۔ آیت (ان اللہ لایغفر ان یشرک بہ ویغفر مادون ذلک لمن یشاء) ۔ بلا شبہ اللہ تعالیٰ اس بات کو معاف نہیں کرتے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے ہاں مشرک کے علاوہ جس کو چاہے گا بخش دے گا۔
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت اور مغفرت عام کے سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت ہر مسلمان کو حاصل ہو گی خواہ وہ صالح ہو یا گنہگار، اور اس کی صورت یہ ہو گی کہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کی وجہ سے جنت میں صالح اور نیکو کار لوگوں کے تو درجات بلند کرے گا اور اکثر گنہگاروں کو بخش کر جنت میں داخل کرے گا۔ اب رہ گئے وہ لوگ جو دوزخ میں ہوں گے تو ان کے حق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کا اثر یہ ہو گا کہ ان کے عذاب میں تخفیف اور مدت عذاب میں کمی کر دی جائے گی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور بخشش بھی انشاء اللہ ہر مسلمان کو حاصل ہو گی خواہ وہ صالح ہو یا گنہگار۔ بایں طور کہ جنت میں صالح و نیکوکاروں کے درجات اس جزاء و انعام سے زیادہ بلند ہوں گے جس کا وہ اپنے نیک اعمال کی وجہ سے مستحق ہو گا۔ اور فاجر و گنہگار کے حق میں اس کی مغفرت یہ ہو گی کہ یا تو انہیں اپنے فضل و کرم سے بغیر عذاب ہی کے جنت میں داخل کر دے گا یا پھر ان کے عذاب کی شدت میں کمی کر دے گا جو مغفرت ہی کی ایک نوع ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں