مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ عرفات اور مزدلفہ سے واپسی کا بیان ۔ حدیث 1162

عرفات میں جمع بین الصلوٰتین

راوی:

وعن ابن شهاب قال : أخبرني سالم أن الحجاج بن يوسف عام نزل بابن الزبير سأل عبد الله : كيف نصنع في الموقف يوم عرفة ؟ فقال سالم إن كنت تريد السنة فهجر بالصلاة يوم عرفة فقال عبد الله بن عمر : صدق إنهم كانوا يجمعون بين الظهر والعصر في السنة فقلت لسالم : أفعل ذلك رسول الله صلى الله عليه و سلم ؟ فقال سالم : وهل يتبعون في ذلك إلا سنته ؟ رواه البخاري

حضرت ابن شہاب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے حضرت سالم رحمہ اللہ نے مجھے بتایا کہ حجاج ابن یوسف نے جس سال حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قتل کیا اسی سال اس نے (مکہ آنے کے بعد) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ ہم عرفہ کے دن وقوف کے دوران کیا کریں۔ (یعنی عرفات میں اس دن ظہر، عصر کی نماز وقوف سے پہلے پڑھ لیں یا وقوف کے دوران اور یا وقوف کے بعد؟) اس کا جواب سالم نے دیا کہ" اگر تو سنت پر عمل کرنا چاہتا ہے تو عرفہ کے دن (ظہر و عصر کی نماز) سویرے پڑھ" (یہ جواب سن کر) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ سالم ٹھیک کہتے ہیں، کیونکہ صحابہ طریقہ سنت کو اختیار کرنے کے لئے ظہر و عصر کی نماز ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ ابن شہاب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سالم سے پوچھا کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی طرح کیا تھا؟ حضرت سالم نے فرمایا۔ ہم اس معاملہ میں (یعنی اس طرح نماز پڑھنے میں) صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے طریقہ کی پیروی کرتے ہیں۔ (بخاری)

تشریح
جو شخص اسلامی تاریخ سے ذرا بھی واقفیت رکھتا ہے وہ حجاج بن یوسف کے نام سے بخوبی واقف ہو گا۔ یہ نام ظلم و بربریت کی داستانوں میں اپنی ایک بڑی ہی وحشت ناک داشتان کا حامل ہے۔ حجاج بن یوسف جس کے نام کا جز ہی " ظالم " بن چکا ہے، کہا جاتا ہے کہ اس نے ایک لاکھ بیس ہزار آدمیوں کو باندھ کر قتل کرایا تھا۔ عبدالملک بن مروان کی طرف سے اسی ظالم نے مکہ میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر چڑھائی کی تھی اور ان جلیل القدر صحابی کو اس نے سولی پر چڑھا دیا تھا۔
اس واقعہ کے بعد اسی سال عبدالملک بن مروان نے اس کو حاجیوں کا امیر مقرر کیا اور اسے حکم دیا کہ تمام افعال حج میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے افعال و اقوال کی پیروی کرنا، ان سے حج کے مسائل پوچھتے رہنا اور کسی معاملہ میں ان کی مخالفت نہ کرنا، چنانچہ حجاج نے اس وقت حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مذکورہ بالا مسئلہ بھی پوچھا۔

یہ حدیث شیئر کریں