سرمنڈوانے کی جزا
راوی:
وعن كعب بن عجرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه و سلم مر به وهو بالحديبية قبل أن يدخل مكة وهو محرم وهو يوقد تحت قدر والقمل تهافت على وجهه فقال : " أتؤذيك هوامك ؟ " . قال : نعم . قال : " فاحلق رأسك وأطعم فرقا بين ستة مساكين " . والفرق : ثلاثة آصع : " أو صم ثلاثة أيام أوانسك نسيكة "
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس سے گزرے جب کہ وہ مکہ میں داخل ہونے سے پہلے حدیبیہ میں تھے اور وہ کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ احرام کی حالت میں تھے یعنی یہ اس موقع کا ذکر ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رفقاء کے ہمراہ عمرہ کے لئے مکہ روانہ ہوئے تھے لیکن مشرکین نے حدیبیہ میں سب کو روک دیا تھا چنانچہ سب کے ساتھ کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی مکہ میں داخل ہونے کے متوقع تھے مگر پھر بعد میں ایک معاہدہ کے تحت کہ جس کو صلح حدیبیہ کہتے ہیں، سب لوگ عمرہ کئے بغیرہ واپس ہو گئے تھے، بہر کیف جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کعب کے پاس سے گزرے تو وہ ہانڈی کے نیچے آگ جلا رہے تھے اور جوئیں سر سے جھڑ کر ان کے منہ پر گر رہی تھیں، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ کیا یہ جوئیں تمہیں تکلیف پہنچا رہی ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا ۔ جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تو پھر تم اپنا سر منڈوا لو اور بطور جزاء ایک فرق کھانا چھ مسکینوں کو کھلا دو اور فرق تین صاع کا ہوتا ہے یا تین روزے رکھ لو اور یا ایک جانور جو ذبح کرنے کے قابل ہو، ذبح کرو۔ (بخاری ومسلم)
تشریح
حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عجرہ ایک جلیل القدر انصاری صحابی ہیں، صلح حدیبیہ کے موقع پر یہ بھی موجود تھے، ان کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ بڑا دلچسپ بھی ہے اور بڑا سبق آموز بھی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ان کے پاس ایک بت تھا جس کو یہ پوجا کرتے تھے، عبادہ بن صامت ان کے دوست تھے ، ایک دن عبادہ کعب کے پاس آئے تو انہوں نے دیکھا کہ کعب بت کی پوجا کرنے کے بعد گھر سے نکل کر گئے ہیں، عبادہ گھر میں داخل ہوئے اور اس بت کو توڑ ڈالا ، جب کعب گھر میں آئے تو دیکھا کہ بت ٹوٹا پڑا ہے، انہیں معلوم ہوا کہ یہ حرکت عبادہ کی ہے ، بڑے غضب ناک ہوئے اور چاہا کہ عبادہ کو برا بھلا کہیں مگر پھر سوچ میں پڑ گئے ، دل میں خیال پیدا ہوا کہ اگر اس بت کو کچھ بھی قدرت حاصل ہوتی تو اپنے آپ کو بچا لیتا ، بس یہ خیال گزرنا تھا کہ شرک و کفر کا اندھیرا چھٹ گیا اور ایمان و صداقت کے نور نے قلب و دماغ کے ایک ایک گوشہ کو منور کر دیا اور اس طرح وہ مشرف باسلام ہو گئے ، سچ ہے اللہ تعالیٰ جسے ہدایت یافتہ بناتا ہے اسی طرح ہدایت کی توفیق بخش دیتا ہے۔
بہر کیف اس حدیث سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ اگر کوئی محرم کسی عذر مثلاً جوئیں ، زخم اور درد سر وغیرہ کی وجہ سے اپنا سر منڈوائے تو اسے اختیار ہے کہ بطور جزاء چاہے تو چھ مسکینوں کو کھانا کھلائے بایں طور کہ ہر مسکین کو آدھا صاع گیہوں دے دے ، چاہے تین روزے رکھ لے اور چاہے جانور ذبح کرے۔ چنانچہ یہ حدیث اس آیت کریمہ کی تفسیر ہے کہ ( فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ بِه اَذًى مِّنْ رَّاْسِه فَفِدْيَةٌ مِّنْ صِيَامٍ اَوْ صَدَقَةٍ اَوْ نُسُكٍ) 2۔ البقرۃ : 196)۔ اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو اور وہ اپنا سر منڈا دے تو وہ بطور فدیہ یا تو روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے۔