حالت احرام میں خوشبودار تیل استعمال کرنا ممنوع ہے
راوی:
وعن ابن عمر رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه و سلم كان يدهن بالزيت وهو محرم غير المقنت يعني غير المطيب . رواه الترمذي
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احرام کی حالت میں بغیر خوشبو کا زیتون کا تیل استعمال کر تے تھے۔ (ترمذی)
تشریح
مقتت اس تیل کو کہتے ہیں جس میں خوشبو کے پھول ڈال کر اسے پکا لیا جائے تاکہ وہ تیل خوشبو دار ہو جائے یا اس تیل میں کوئی خوشبو دار تیل وغیرہ ملا دیا جائے۔
احرام کی حالت میں خوشبودار تیل استعمال کرنا مکروہ ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر کوئی محرم کسی ایک عضو کے پورے حصہ پر یا کئی یا سب اعضاء پر روغن بنفشہ، روغن گلاب، روغن موتیا یا اسی قسم کا کوئی بھی خوشبودار تیل لگائے گا تو حنفیہ کے ہاں بالاتفاق اس پر دم یعنی جانور ذبح کرنا واجب ہو گا اور اگر زیتون یا تل کا ایسا تیل کہ جس میں خوشبو نہ ملی ہوئی ہو زیادہ مقدار میں لگائے گا تو حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک اس صورت میں بھی دم واجب ہو گا جب کہ صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد کہتے ہیں کہ صدقہ واجب ہو گا۔ لیکن یہ اختلاف اس صورت میں ہے جب کہ یہ دونوں تیل خوشبو سے بالکل خالی اور کسی خوشبودار پھول کے پکائے ہوئے نہ ہوں، کیونکہ اگر زیتون کے یا تل کے تیل میں خوشبو ملی ہو گی یا اس میں خوشبودار پھول ڈال کر پکایا گیا ہو تو پھر سب ہی کے نزدیک اس کو استعمال کرنے کی وجہ سے دم واجب ہو گا۔ اسی طرح یہ اختلاف اس صورت میں ہے جب کہ یہ تیل زیادہ مقدار میں لگائے جائیں اور اگر کم مقدار میں لگایا جائے گا تو متفقہ طور پر سب کے نزدیک اس کے استعمال کرنے سے صرف صدقہ واجب ہوگا۔
اور پھر ایک بات یہ بھی جان لیجئے کہ ان تیلوں کے استعمال کی وجہ سے دم یا صدقہ اسی وقت واجب ہو گا جب کہ ان کو محض خوشبو کی خاطر استعمال کیا جائے اور اگر انہیں دوا کے طور پر استعمال کیا جائے گا تو پھر علی الاتفاق کچھ بھی واجب نہیں ہو گا ۔ جب کہ مشک یا دوسری خوشبوؤں کے استعمال کا مسئلہ اس سے مختلف ہے کہ ان کے استعمال سے بہر صورت دم واجب ہوتا ہے خواہ بطور خوشبو استعمال ہو خواہ بطور دوا۔