محصر کے لئے حلق یا تقصیر کا مسئلہ
راوی:
وعن عبد الله بن عمر قال : خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه و سلم فحال كفار قريش دون البيت فنحر النبي صلى الله عليه و سلم هداياه وحلق وقصر أصحابه . رواه البخاري
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ عمرے کے لئے گئے تو کفار قریش نے ہمیں خانہ کعبہ پہنچنے سے پہلے حدیبیہ میں روک دیا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ہدی کے جانور وہیں ذبح کئے اور سر منڈوایا ، نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رفقاء میں سے کچھ نے بال کتروائے اور کچھ نے سر منڈوائے۔ (بخاری)
تشریح
فقہ حنفی کی کتاب ہدایہ میں لکھا ہے کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام محمد تو یہ کہتے ہیں کہ محصر کے لئے سر منڈوانا یا بال کتروانا ضروری نہیں ہے کیونکہ حلق سر منڈوانا تقصیر بال کتروانا اسی صورت میں عبادت شمار کیا جاتا ہے جب کہ افعال حج کی ترتیب میں ہو لہٰذا جب حج کے افعال ادا ہی نہ ہوں تو ان کو عبادت شمار نہیں کر سکتے جہاں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعلق ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اور صحابہ نے حلق یا تقصری اس مقصد سے کیا تھا کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ بس اب واپسی کا پختہ ارادہ ہو گیا ہے اور عمرہ کی ادائیگی کی صورت نہیں رہی ہے حضرت امام ابویوسف کے نزدیک محصر کو اگرچہ سر منڈوانا یا کتروانا چاہئے لیکن اگر وہ سر نہ منڈوائے یا بال نہ کتروائے تو اس صورت میں بھی احرام سے باہر ہو جائے گا اور بطور جزاء اس پر کچھ واجب نہیں ہو گا۔