احصار اور حج فوت ہوجانے کا مسئلہ
راوی:
وعن ابن عمر أنه قال : أليس حسبكم سنة رسول الله صلى الله عليه و سلم ؟ إن حبس أحدكم عن الحج طاف بالبيت وبالصفا والمروة ثم حل من كل شيء حتى يحج عاما قابلا فيهدي أو يصوم إن لم يجد هديا . رواه البخاري
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں مروی ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ کیا تمہارے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ سنت یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی کافی نہیں کہ اگر تم میں سے کوئی شخص حج سے روکا جائے یعنی اس کو کوئی ایسا عذر پیش آ جائے جو حج کے رکن اعظم یعنی وقوف عرفات سے مانع ہو اور طواف و سعی سے مانع نہ ہو تو وہ بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کر کے ہر چیز سے حلال ہو جائے یعنی اس کے بعد اس کے لئے ہر وہ چیز حلال ہو جائے گی جو احرام کی حالت میں ممنوع تھی تآنکہ وہ اگلے سال حج کرے اور ہدی ذبح کرے اور اگر وہ ہدی ذبح نہ کر سکتا ہو تو روزہ رکھے۔ (بخاری)
تشریح
اس حدیث میں احصار کا حکم بیان کیا گیا ہے ! کچھ لوگوں نے اس بارہ میں خلاف سنت طرز عمل اختیار کیا ہو گا، اس لئے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں متنبہ فرمایا اور کہا کہ اس بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت یہ ہے کہ اگر کسی کو حج میں حصر و حبس کی صورت پیش آ جائے تو وہ عمرہ کے افعال ادا کر کے احرام کھول دے اور سال آئندہ اس حج کی قضا کرے۔
اس سلسلہ میں یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ فائت الحج اور محصر کے حکم میں تھوڑا سا فرق ہے فائت الحج کے لئے تو یہ حکم ہے کہ اگر وہ مفرد ہو یعنی اس نے صرف حج کا احرام باندھا ہو تو طواف و سعی کر کے احرام کھول دے اس پر صرف سال آئندہ اس حج کی قضا واجب ہے، عمرہ اور ہدی اس کے لئے واجب نہیں ہے۔
محصر کے لئے یہ حکم ہے کہ اگر وہ مفرد ہو اور اسے حرم پہنچنے سے پہلے ہی راستہ میں احصار کی کوئی صورت پیش آ جائے تو وہ پہلے ہدی کا جانور حرم بھیجے جب وہ جانور حرم میں پہنچ کر ذبح ہو جائے تو وہ احرام کھول دے اور آئندہ سال اس حج کی قضا کرے اور اس کے ساتھ ہی ایک عمرہ بھی کرے۔
لیکن حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ اس پر سال آئندہ صرف حج کرنا ہی واجب ہو گا عمرہ کرنا ضروری نہیں ہو گا، کیونکہ وہ صرف حج سے محصر ہوا ہے اور چونکہ ہدی کا جانور بھیج کر اس نے احرام کھولا تھا تو بس اس کے بدلہ اس کے ذمہ صرف حج ہی ہے، عمرہ نہیں ہے۔
اور اگر محصر قارن ہو (یعنی اس نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا ہو) تو وہ بھی ہدی کا جانور حرم میں بھیجے اور وہاں اس جانور کے ذبح ہو جانے کے بعد احرام کھول دے، لیکن سال آئندہ اس پر اس حج کی قضا اور اس کے ساتھ دو عمرے واجب ہوں گے، اس پر ایک حج اور دو عمرے واجب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ایک حج اور عمرہ تو اصلی حج وعمرہ کے بدلہ ادا کرنا ہو گا، اور دوسرا عمرہ اس واسطے کہ اس سے حج اور عمرہ فوت ہوا اس لئے اس کی جزاء کے طور پر ایک عمرہ ادا کرنا ہو گا۔
اور اگر احصار کی صورت حرم پہنچنے سے پہلے راستہ میں پیش نہ آئے بلکہ حرم پہنچ کر پیش آئے کہ وہ کسی عذر کی وجہ سے وقوف عرفات سے تو عاجز رہے مگر طواف اور سعی کر سکتا ہو تو وہ طواف و سعی کرنے کے بعد یعنی عمرہ کے افعال ادا کر کے احرام کھول دے اور پھر آئندہ سال اس حج کی قضا کرے اور ہدی کا جانور ذبح کرے اور اگر ہدی کا جانور ذبح نہ کر سکتا ہو تو روزہ رکھے، مذکورہ حدیث میں یہی صورت بیان فرمائی گئی ہے۔
فائت الحج اگر قارن ہو تو پہلے وہ عمرہ کے لئے طواف و سعی کرے پھر حج فوت ہو جانے کے بدلہ میں طواف و سعی کرے اس کے بعد سر منڈائے یا بال کتروائے اور احرام کھول دے اس کے ذمہ سے قران کی قربانی ساقط ہو جائے گی۔ اور اگر وہ متمتع ہو گا تو اس کا تمتع باطل ہو جائے گا اور اس کے ذمہ سے تمتع کی قربانی بھی ساقط ہو جائے گی اگر وہ اس کی قربانی کا جانور اپنے ساتھ لایا ہو تو اس کو جو چاہے کرے۔
جس طرح مفرد کا حج فوت ہو جانے کی صورت میں اس پر آئندہ سال صرف حج کی قضا ہی واجب ہوتی ہے اسی طرح قران اور تمتع کی صورت میں بھی اس پر آئندہ سال صرف حج کی قضا واجب ہو گی۔
عمرہ فوت نہیں ہوا کرتا۔ اس موقع پر یہ بات بھی جان لیجئے کہ عمرہ فوت نہیں ہوا کرتا کیونکہ وہ تو سال میں کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے علاوہ یوم عرفہ، یوم عیدالاضحیٰ اور ایام تشریق کے ، جب کہ حج کی ادائیگی تو اسی خاص زمانہ اور خاص وقت میں ہو سکتی ہے جو شریعت نے متعین کی ہے۔