لوگوں کے درمیان صلح کرا دینے کے متعلق جو منقول ہے اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ ان کی اکثر سر گوشیوں میں بھلائی نہیں ہوتی مگر جو شخص صدقہ یا اچھی باتوں کا یا لوگوں کے درمیان اصلاح کا حکم دے اور جس نے یہ اللہ کی خوشنودی کی خاطر کیا تو عنقریب ہم اسے بہت بڑا اجر دیں گے اور امام کا اپنے ساتھیوں کے ساتھ لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے جنگ کے مقامات پر جانے کا بیان۔
راوی: سعید بن ابی مریم ابوغسان ابوحازم سہل بن سعد
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ أُنَاسًا مِنْ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ کَانَ بَيْنَهُمْ شَيْئٌ فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ يُصْلِحُ بَيْنَهُمْ فَحَضَرَتْ الصَّلَاةُ وَلَمْ يَأْتِ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَائَ بِلَالٌ فَأَذَّنَ بِلَالٌ بِالصَّلَاةِ وَلَمْ يَأْتِ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَائَ إِلَی أَبِي بَکْرٍ فَقَالَ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُبِسَ وَقَدْ حَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَهَلْ لَکَ أَنْ تَؤُمَّ النَّاسَ فَقَالَ نَعَمْ إِنْ شِئْتَ فَأَقَامَ الصَّلَاةَ فَتَقَدَّمَ أَبُو بَکْرٍ ثُمَّ جَائَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي فِي الصُّفُوفِ حَتَّی قَامَ فِي الصَّفِّ الْأَوَّلِ فَأَخَذَ النَّاسُ بِالتَّصْفِيحِ حَتَّی أَکْثَرُوا وَکَانَ أَبُو بَکْرٍ لَا يَکَادُ يَلْتَفِتُ فِي الصَّلَاةِ فَالْتَفَتَ فَإِذَا هُوَ بِالنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَائَهُ فَأَشَارَ إِلَيْهِ بِيَدِهِ فَأَمَرَهُ أَنْ يُصَلِّيَ کَمَا هُوَ فَرَفَعَ أَبُو بَکْرٍ يَدَهُ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَی عَلَيْهِ ثُمَّ رَجَعَ الْقَهْقَرَی وَرَائَهُ حَتَّی دَخَلَ فِي الصَّفِّ وَتَقَدَّمَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّی بِالنَّاسِ فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ عَلَی النَّاسِ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِذَا نَابَکُمْ شَيْئٌ فِي صَلَاتِکُمْ أَخَذْتُمْ بِالتَّصْفِيحِ إِنَّمَا التَّصْفِيحُ لِلنِّسَائِ مَنْ نَابَهُ شَيْئٌ فِي صَلَاتِهِ فَلْيَقُلْ سُبْحَانَ اللَّهِ فَإِنَّهُ لَا يَسْمَعُهُ أَحَدٌ إِلَّا الْتَفَتَ يَا أَبَا بَکْرٍ مَا مَنَعَکَ حِينَ أَشَرْتُ إِلَيْکَ لَمْ تُصَلِّ بِالنَّاسِ فَقَالَ مَا کَانَ يَنْبَغِي لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يُصَلِّيَ بَيْنَ يَدَيْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
سعید بن ابی مریم ابوغسان ابوحازم سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ بنی عمرو بن عوف کے چند لوگوں کے درمیان کوئی جھگڑا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے چند صحابہ کے ساتھ ان کے درمیان صلح کرانے کے لئے تشریف لے گئے نماز کا وقت آ گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہیں لائے تو بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور انہوں نے اذان دی پھر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہیں لائے تو بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچے اور کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رک گئے ہیں اور نماز کا وقت آ گیا ہے کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کی امامت کریں گے؟ انہوں نے کہا ہاں! اگر تمہاری خواہش ہو چنانچہ تکبیر کہی گئی اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگے بڑھے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم صفوں کو چیرتے ہوئے داخل ہو گئے یہاں تک کہ پہلی صف میں پہنچ گئے لوگوں نے تالی بجانی شروع کردی یہاں تک کہ ان لوگوں نے زیادتی کی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز میں کسی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے جب نگاہ پھیری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پیچھے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ سے ان کی طرف اشارہ کیا اور حکم دیا کہ نماز پڑھائیں جس طرح پڑھا رہے ہیں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا ہاتھ اٹھایا اللہ کی حمد بیان کیا پھر الٹے پاؤں واپس لوٹ گئے یہاں تک کہ صف میں داخل ہو گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور لوگوں کو نماز پڑھائی جب فارغ ہوئے تو فرمایا اے لوگو! جب تم کو نماز میں کوئی بات پیش آجاتی ہے تو تالی بجانا شروع کردیتے ہو حالانکہ تالی بجانا عورتوں کے لئے ہے نماز میں اگر کوئی بات پیش آ جائے تو سبحان اللہ کہنا چاہئے اس لئے کہ جو شخص اس کو سنے گا وہ متوجہ ہوجائے گا اور اے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمہیں کس بات نے اس سے روکا کہ لوگوں کو نماز پڑھاؤ جب کہ میں نے اشارہ کردیا تھا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ ابن ابی قحافہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ حق نہیں پہنچتا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں نماز پڑھائے۔
Narrated Sahl bin Sad:
There was a dispute amongst the people of the tribe of Bani 'Amr bin 'Auf. The Prophet went to them along with some of his companions in order to make peace between them. The time for the prayer became due but the Prophet did not turn up; Bilal pronounced the Adhan (i.e. call) for the prayer but the Prophet did not turn up, so Bilal went to Abu Bakr and said, "The time for the prayer is due and the Prophet i detained, would you lead the people in the prayer?" Abu Bakr replied, "Yes, you wish." So, Bilal pronounced the Iqama of the prayer and Abu Bakr went ahead (to lead the prayer), but the Prophet came walking among the rows till he joined the first row. The people started clapping and they clapped too much, and Abu Bakr used not to look hither and thither in the prayer, but he turned round and saw the Prophet standing behind him. The Prophet beckoned him with his hand to keep on praying where he was. Abu Bakr raised his hand and praised Allah and then retreated till he came in the (first) row, and the Prophet went ahead and lead the people in the prayer. When the Prophet finished the prayer, he turned towards the people and said, "O people! When something happens to you during the prayer, you start clapping. Really clapping is (permissible) for women only. If something happens to one of you in his prayer, he should say: 'Subhan Allah', (Glorified be Allah), for whoever hears him (saying so) will direct his attention towards him. O Abu Bakr! What prevented you from leading the people in the prayer when I beckoned to you (to continue)?" Abu Bakr replied, "It did not befit the son of Abu Quhafa to lead the prayer in front of the Prophet.