و صیتوں کا بیان اور آنحضرت صلعم کا ارشاد گرامی کہ وصیت کرنے والے کا وصیت نامہ لکھا ہوا ہونا چاہیے، اور فرمان الٰہی کہ جب تم میں سے کوئی شخص مرنے لگے اور مال چھورے، تو والدین اور رشتہ داروں کے حق میں دستور کے مطابق تم پر وصیت فرض ہے، نیز پرہیز گاروں کیلئے ایسا کرنا ضروری ہے، جو شخص وصیت کو سننے کے بعد بدل ڈالے تو اس کا گناہ بدلنے والوں پر ہے، بے شک اللہ تعالیٰ سننے اور جاننے والا ہے اور جو شخص وصیت کرنے والے کی طرف سے حق تلفی یا طرفداری کا ڈر رکھتا ہو، اور ان کے درمیان صلح کرادے تو ان پر گناہ نہیں، بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے، جنف سے مراد ہے، جھک جانا، متجانف (جھکنے والا) اسی سے ہے۔
راوی: عمر بن زرارہ , اسمٰعیل , ابن عون , ابراہیم , اسود سے روایت کرتے ہیں کہ عائشہ
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ قَالَ ذَکَرُوا عِنْدَ عَائِشَةَ أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا کَانَ وَصِيًّا فَقَالَتْ مَتَی أَوْصَی إِلَيْهِ وَقَدْ کُنْتُ مُسْنِدَتَهُ إِلَی صَدْرِي أَوْ قَالَتْ حَجْرِي فَدَعَا بِالطَّسْتِ فَلَقَدْ انْخَنَثَ فِي حَجْرِي فَمَا شَعَرْتُ أَنَّهُ قَدْ مَاتَ فَمَتَی أَوْصَی إِلَيْهِ
عمر بن زرارہ، اسماعیل، ابن عون، ابراہیم، اسود سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے سامنے لوگوں نے بیان کیا، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصی حضرت علی تھے جس پر انہوں نے کہا کہ آپ نے کب انہیں وصیت کی؟ میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سینے سے یا اپنی گود سے تکیہ لگائے ہوئے تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی کا طشت مانگا اور میری گود میں جھک گئے مجھے معلوم بھی نہیں ہوا، کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوگئی بتاؤ آپ نے انہیں وصیت کب کی؟
Narrated Al-Aswad:
In the presence of 'Aisha some people mentioned that the Prophet had appointed 'Ali by will as his successor. 'Aisha said, "When did he appoint him by will? Verily when he died he was resting against my chest (or said: in my lap) and he asked for a wash-basin and then collapsed while in that state, and I could not even perceive that he had died, so when did he appoint him by will?"