صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ وصیتوں کا بیان ۔ حدیث 43

باب (نیو انٹری)

راوی:

بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَيَسْأَلُونَكَ عَنْ الْيَتَامَى قُلْ إِصْلَاحٌ لَهُمْ خَيْرٌ وَإِنْ تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنْ الْمُصْلِحِ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ لَأَعْنَتَكُمْ لَأَحْرَجَكُمْ وَضَيَّقَ وَعَنَتِ خَضَعَتْ وَقَالَ لَنَا سُلَيْمَانُ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ قَالَ مَا رَدَّ ابْنُ عُمَرَ عَلَى أَحَدٍ وَصِيَّةً وَكَانَ ابْنُ سِيرِينَ أَحَبَّ الْأَشْيَاءِ إِلَيْهِ فِي مَالِ الْيَتِيمِ أَنْ يَجْتَمِعَ إِلَيْهِ نُصَحَاؤُهُ وَأَوْلِيَاؤُهُ فَيَنْظُرُوا الَّذِي هُوَ خَيْرٌ لَهُ وَكَانَ طَاوُسٌ إِذَا سُئِلَ عَنْ شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ الْيَتَامَى قَرَأَ وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنْ الْمُصْلِحِ وَقَالَ عَطَاءٌ فِي يَتَامَى الصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ يُنْفِقُ الْوَلِيُّ عَلَى كُلِّ إِنْسَانٍ بِقَدْرِهِ مِنْ حِصَّتِهِ

ﷲ تعالیٰ نے کہا لوگ آپ سے یتیموں کے متعلق پوچھتے ہیں تو آپ ان سے کہہ دیجئے کہ انکی صلاح بہتر ہے اور اگر ان سے مل جل کر رہو تو وہ تمہارے بھائی ہیں ﷲ مفسد اور مصلح کو جانتا ہے اگر ﷲ چاہتا تو تمہیں مصیبت میں کر دیتا، بیشک ﷲ عزت والا حکمت والا ہے اور لا عنتکم کے معنی لا حرجکم و ضیق (یعنی تمہیں حرج اور تنگی میں ڈال دیتا) اور عنت کے معنی جھک گئے اس حدیث کو ہم سے سلیمان بن حرب نے بسلسلہ سند حماد ایوب نافع بیان کیا، حضرت ابن عمر نے کبھی کسی کی وصیت نامنظور نہیں کی اور ابن سیرین کو یتیم کے مال میں زیادہ پسند یہ تھا، کہ اس کے خیر خواہ اور اس کے اولیاءجمع ہوں اور غور کریں کہ اس کے لئے جو مفید ہے وہی کام اس کے مال سے آغازکر دیا جائے اور طاؤس سے جب یتیموں کے معاملہ میں پوچھا جاتا تو وہ یہ آیت پڑھ دیتے وﷲ یعلم المفسد الخ اور عطاء نے یتیموں کے بارے میں خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے کہا ہے کہ ولی ہر شخص پر بقدر اس کے حصہ کے خرچ کرے۔

یہ حدیث شیئر کریں