مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ سود کا بیان ۔ حدیث 68

سود کے بارے میں ایک شبہ اور اس کا جواب

راوی:

بعض پڑھے لکھے لوگ اس شبہ میں بھی مبتلا ہیں کہ قرآن کریم نے جس ربا کو حرام قرار دیا ہے وہ ایک خاص قسم کا ربا تھا جو زمانہ جاہلیت میں رائج تھا کہ کوئی غریب مصیبت زدہ شخص اپنی مصیبت دور کرنے کے لئے کسی سے قرض لے لیتا تھا اور قرض خواہ اس پر ایک متعین نفع سود لیا کرتا تھا یہ بے شک ایک سنگدلی کی بات تھی کہ کوئی شخص کسی کی مصیبت میں اس کی مدد کرنے کی بجائے الٹا اس کی مصیبت سے فائدہ اٹھائے ۔ قرآن نے سود کی اس صورت کو حرام قرار دیا ۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس حرمت کا اطلاق آج کے زمانہ میں بھی سود کی اس صورت پر ہو سکتا ہے جو مہاجنوں اور دوسرے سود خوروں کے ہاں شخصی اور انفرادی طور پر رائج ہے کہ کوئی ضرورت مند وغریب اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے خواہ کوئی چیز رہن وگروی رکھ کر یا اور کسی اعتماد پر ان سے قرض لیتا ہے اور اس پر حسب شرط وتعیین سود ادا کرتا ہے لیکن آ جکل تجارتوں بینکوں کمپنیوں اور اجتماعی اداروں کے ذریعہ جو سودی کاروبار ہوتا ہے اس کی صورت بالکل مختلف ہے جس کی وجہ سے اب سود دینے والے مصیبت زدہ لوگ نہیں رہے بلکہ متمول اور سرمایہ دار تجار ہیں جو غریبوں سے سود لینے کی بجائے خود ان کو دیتے ہیں ظاہر ہے کہ اس صورت میں غریبوں کا ہی فائدہ ہے کہ بہت سے قلیل سرمایہ والے لوگ مذکورہ بالا ذرائع سے کچھ نہ کچھ حاصل کر لیتے ہیں لہذا موجودہ دور کے تجارتی سود پر حرمت کا اطلاق نہیں ہونا چاہئے۔
اس کے جواب کے سلسلے میں پہلے تو ایک بنیادی بات یہ جان لین چاہئے کہ شریعت کے کسی بھی حکم کا تعلق اصول اور کلیہ سے ہوتا ہے جونیات اور اقسام کے اختلاف سے اس حکم کے نفاذ پر اثر انداز نہیں ہوتے ۔ شریعت نے جس چیز کو اصولی طور پر حرام قرار دیا ہے وہ چیز اپنے تمام اجزاء اور اپنی تمام اقسام کے ساتھ حرام ہوگی یہ حق کسی کو حاصل نہیں ہوگا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم میں اس چیز کے کسی جزء یا کسی قسم کو محض اپنے خیال سے مستثنی کر دے یا اس حکم کے اطلاق کو بلا کسی شرعی دلیل کے مقید ومحدود کر سکے۔ اگر کوئی شخص یہ کہنے لگے کہ اس حرمت کا تعلق اس شراب سے ہے جو پہلے زمانہ میں خراب قسم کے برتنوں میں سڑا کربنائی جاتی تھی اب تو چونکہ صفائی ستھرائی کا بڑا اہتمام ہے مشینوں کے ذریعے سب کام ہوتا ہے اعلي درجہ کی شرابیں بنتی ہیں لہذا موجودہ دور کی شراب پر حرمت کا اطلاق نہیں ہونا چاہئے تو ظاہر ہے کہ یہ بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جو اسلامی شریعت کا ذرا سا بھی علم نہ رکھتا ہے یا اسلامی شریعت کے مزاج سے قطعًا ناواقف ہو۔
اس کے علاوہ اس پر بھی غور کیجئے کہ اس طرح احکام قرآن کو اپنے خیالات کے تابع کرنے کا دروازہ کھل جائے تو پھر کس چیز کی حرمت باقی رہ جائے گی قمار جوا چوری ڈاکہ زنا فواحش ان میں سے کون سی برائی ایسی ہے جس کی موجودہ صورت پہلے زمانہ کی صورت سے مختلف نہیں ہے اس کا مطلب تو یہ ہوگا کہ ان سبھی برائیوں کو جائز کہنا پڑے گا لہذا جب محض چولہ بدلنے سے کسی شخص کی حقیقت نہیں بدلا کرتی تو کوئی بھی برائی خواہ وہ کتنی صورت اختیار کے اس کا حکم بھی کی حال میں نہیں بدلے گا۔
اس بات کو سمجھ لینے کے بعد اب ربا کا جائزہ لیجئے تو معلوم ہوگا کہ قرآن کریم میں ربا کی مخالفت کا ذکر ایک جگہ نہیں مختلف سورتوں کی کئی آیتوں میں آیا ہے اور چالیس سے زائد احادیث میں مختلف عنوان سے اس کی حرمت بیان کی گئی ہے ان میں سے کسی ایک جگہ کسی ایک لفظ میں بھی یہ اشارہ نہیں ہے کہ حرمت کا یہ حکم کسی خاص صورت یا کسی خاص مصلحت کے پیش نظر ہے۔ حرمت ربا کی کسی بھی آیت یا کسی بھی حدیث سے یہ اشارہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ یہ حرمت صرف اس ربا کی ہے جو شخصی اغراض کے لئے لیا دیا جاتا تھا تجارتی سود اس سے مستثنی ہے بلکہ اگر اس مسئلہ پر تاریخی نقطہ نظر سے غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ سرے سے یہ خیال ہی غلط ہے کہ نزول قرآن کے زمانہ میں سود کی صرف یہی صورت رائج تھی کہ کوئی مصیبت زدہ شخص یا غریب آدمی اپنی ضرورت پوری کرنے کے لے سود پر قرض کا معاملہ کرتا تھا اور تجارتی معاملات کے لئے سود پر روپیہ لینے دینے کا رواج نہیں تھا بلکہ آیات ربا کا شان نزول دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حرمت ربا جب نزول ہوا ہے تو اس وقت شخصی اغراض کے لئے سودی لین دین کے علاوہ تجارتی معاملات کے لئے بھی سود کا لین دین رائج تھا کیونکہ عرب اور بالخصوص قریش تجارت پیشہ لوگ تھے جو تجارتی اغراض ہی کے لئے سود کا لین دین کرتے تھے چنانچہ حضرت عباس اور حضرت خالد بن ولید کے بارے میں امام بغوی نے لکھا ہے کہ یہ دونوں شرکت میں کاروبار کرتے تھے اور ان کا لین دین طائف کے بنوثقیف کے ساتھ تھا۔ حضرت عباس کی ایک بڑی رقم سود کے طور پر بنوثقیف کے ذمہ واجب الادا تھی انہوں نے بنو ثقیف سے اپنی سابقہ رقم کا مطالبہ کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے اس حکم کے تحت کہ ربا حرام قرار دیدیا گیا ہے اپنے چچا حضرت عباس کو سود کی اپنی اتنی بڑی رقم چھوڑ دینے کا حکم دیدیا جس کا اعلان آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں بھی یوں فرمایا
حدیث (وربا الجاہلیۃ موضوع واول ربا اضع من ربانا ربا عباس بن عبدالمطلب)
زمانہ جاہلیت کا سود چھوڑ دیا گیا ہے اور سب سے پہلا سود جسے میں اپنے سودوں میں سے چھوڑتا ہوں عباس بن عبد المطلب کا سود ہے
اس کے علاوہ اور بہت سے ایسے واقعات منقول ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک قبیلہ کا دوسرے قبیلہ کے ساتھ اور ایک خاندان کے ساتھ سودی لین دین تھا پھر اس کے ساتھ یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ جن قبائل یا خاندان کے باہمی سودی لین دین کا ذکر منقول ہے وہ کسی فوری ضرورت یا مصیبت کے تحت قرض لینے کی حیثیت سے نہیں تھا بلکہ اس اندازے سے تھا کہ ان کے درمیان یہ لین دین کاروباری اور تجارتی حیثیت سے مسلسل جاری تھا جیسے ایک تاجر سے یا ایک کمپنی دوسری کمپنی سے معاملہ کیا کرتی ہے بلکہ سودی کاروبار کرنے والے لوگ ربا کو بھی ایک قسم کی تجارت ہی سمجھا کرتے تھے جس کی تردید قرآن کو کرنی پڑی اور خرید وفروخت کے معاملات کو سود ہی کی ایک قسم سمجھنے والوں کے لئے سخت تہدید ووعید نازل ہوئی۔
اب رہی یہ بات کہ بینکوں کے سودی کاروبار سے غریب عوام کا نفع ہے کہ انہیں اپنی رقموں پر کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے تو یاد رکھئے کہ یہی وہ حسین فریب ہے جس کی بنیاد پر یورپین اقوام نے سود جیسی بدیہی اور ہمیشہ کی مسلم لعنت کو کاروبار کا ایک خوب صورت جام پہنایا اور عوام نے اس فریب میں مبتلا ہو کر سود کے چند ٹکوں کے لالچ میں اپنی پونجی کو بینکوں کے حوالہ کر دیا اس طرح پوری قوم کا سرمایہ سمٹ کر بینکوں میں آگیا اور ادھر اس سرمایہ کو بڑے بڑے تاجروں اور بیوپاریوں نے بینکوں سے بطور قرض لے کر اپنے اپنے کاروبار کو وسعت دی اور اس سے جو عظیم الشان نفع حاصل ہوا اس میں سے چند ٹکے بینکوں کو دے کرباقی سب اپنی تجوریوں میں بھر لیا بینک والوں نے ان ٹکوں میں کچھ حصہ پوری قوم کے ان لوگوں کو بانٹ دیا جنہوں نے اپنی پونجی بینک کے حوالہ کی تھی اس طرح سرمایہ دار نے تو اپنے دس ہار روپیہ سے ایک لاکھ روپیہ کما لیا اور بے چارے غریبوں کے حصہ میں کیا آیا صرف چند ٹکے اب بتائیے کہ ان بینکوں سے بھی اصل فائدہ کسے حاصل ہوا ہے؟ سرمایہ دار کو یا غریب کو؟ فریب خوردہ غریب تو اس متوقع فائدہ سے بھی محروم رہا جو وہ اپنی پونجی کو بینک کے حوالے کر دینے کی بجائے کسی چھوٹی موٹی تجارت میں لگا دینے حاصل کرتا اسے تو اتنی بھی سہولت نہ ملی کہ وہ بینک سے کوئی بڑی رقم قرض لے کر کاروبار کر سکتا کیونکہ بینک تو کسی غریب کو پیسہ دینے سے رہا وہ تو بڑے بڑے سرمایہ داروں اور ساکھ والوں کو قرض دیتا ہے لیکن اس کے برخلاف سرمایہ دار نے بینک سے کیا فائدہ حاصل کیا اس نے بینک سے بڑی بڑی رقمیں قرض کے نام پر لیں ان رقموں سے تجارت وصنعت کی بڑی بڑی منڈیوں پر اپنا اجارہ جمایا اور ہر قسم کے کاروبار پر قابض ہو گیا۔ کسی کم سرمایہ والے کو مقابلہ ومسابقت (Competion) کے ذریعہ تجارت کے کسی میدان میں جمنے نہیں دیا اور انجام کار تجارت کا کاروبار جو پوری قوم کے لئے فائدہ مند اور ترقی کا ذریعہ تھا چند مخصوص لوگوں میں محدود ہو کر رہ گیا اور پھر آخر میں جا کر اس سودی کاروبار کی تان غریبوں ہی پر اس طرح ٹوٹی کہ جب تجارت کے اڈوں پر مخصوص سرمایہ دار ناگ بن کر بیٹھ گئے تو اشیاء کے نرخ بھی ان کے رحم وکرم پر رہ گئے جس کا نتیجہ وہ ہے جو آج ہر جگہ سامنے آ رہا ہے کہ سامان معیشت میں روز بروز گرانی بڑھتی ہی جا رہی ہے اور اشیاء کی قیمتیں اس طرح چڑھ رہی ہیں کہ حکومتوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود قابو میں نہیں آ رہی ہیں اور انجام کا فریب خود وہ عوام کو سود کے نام پر جو چند ٹکے ملے تھے ان کے تنیجہ میں سامان معیشت دوگنی تگنی قیمتوں تک پہنچا تو ان غریبوں کی جیب سے سود کے وہ چند ٹکے کچھ اور سود لے کر نکل گئے اور پھر لوٹ پھر کر انہیں سرمایہ داروں کی جیب میں پہنچ گئے لہذا بینکوں اور تجارتی اداروں کے سودی کاروبار کے اس فریب کا پردہ اٹھا کر دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ سودی کاروبار کا عام نتیجہ کسی بھی طرح غریبوں کے حق میں مفید نہیں ہوتا بلکہ یہ درحقیقت پوری قوم کی غربت وافلاس اور چند سرمایہ داروں کے سرمایہ میں بے پناہ اضافہ کا ذریعہ ہے اور یہی وہ معاشی بے اعتدالی اور اقتصادی تباہ کاری ہے جو پوری قوم اور پورے ملک کی تباہی کا سبب بنتی ہے اس لئے اسلام نے سود کے ہر طریقہ اور ہر ذریعہ پر قدغن لگائی ہے خواہ وہ انفرادی و شخص اغراض کے لئے قرض لینے کی صورت میں ہو یا اجتماعی تجارت اور بینکوں کے کاروبار کی شکل میں کیونکہ دونوں ہی صورتوں میں غریب کا خون سود خوروں کی غذا بنتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا معراج کی رات میرا گزر کچھ ایسے لوگوں پر ہوا جن کے پیٹ گھروں مکانوں کی مانند بڑے بڑے تھے اور ان کے پیٹوں میں سانپ بھرے ہوئے تھے جو پیٹوں کے باہر سے بھی نظر آ رہے تھے میں نے انہیں دیکھ کربڑی حیرت کے ساتھ جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ جبرائیل یہ کون لوگ ہیں انہوں بتایا کہ یہ سود خور ہیں (احمد ابن ماجہ)

یہ حدیث شیئر کریں