مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ جن بیوع سے منع کیا گیا ہے ان کا بیان ۔ حدیث 104

جو نقصان کا ذمہ دار ہے وہی نفع کا بھی حق دار ہے

راوی:

عن مخلد بن خفاف قال : ابتعت غلاما فاستغللته ثم ظهرت منه على عيب فخاصمت فيه إلى عمر بن عبد العزيز فقضى لي برده وقضى علي برد غلته فأتيت عروة فأخبرته فقال : أروح إليه العشية فأخبره أن عائشة أخبرتني أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قضى في مثل هذا : أن الخراج بالضمان فراح إليه عروة فقضى لي أن آخذ الخراج من الذي قضى به علي له . رواه في شرح السنة

حضرت مخلد بن خفاف کہتے ہیں کہ میں نے ایک غلام خریدا جس کی کمائی میں وصول کرتا رہا پھر مجھے اس کے ایک ایسے عیب کا علم ہوا جو اس میں خریداری سے پہلے کا تھا اور بیچنے والے نے مجھے اس سے مطلع نہیں کیا تھا چنانچہ اس غلام کے معاملہ کو میں نے حضرت عمر بن عبد العزیز(خلیفہ وقت) کی خدمت میں پیش کیا انہوں نے مجھے یہ فیصلہ سنایا کہ غلام کو واپس کر دیا جائے اور اس کے ساتھ ہی اس کی کمائی بھی واپس کر دی جائے پھر میں حضرت عروہ بن زبیر کی خدمت میں حاضر ہوا جو ایک جلیل القدر تابعی اور فقہاء میں سے تھے اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کے فیصلہ سے انہیں آگاہ کیا حضرت عروہ نے فرمایا کہ میں شام کے وقت حضرت عمر بن عبدالعزیز کی خدمت میں جاؤں گا اور ان کو بتاؤں گا کہ حضرت عائشہ نے مجھ سے یہ نقل کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی قسم کے ایک معاملہ میں یہ فیصلہ دیا تھا کہ منفعت ضمان یعنی تاوان کے ساتھ ہے چنانچہ حضرت عروہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے پاس تشریف لے گئے اور ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے مطلع کیا حضرت عمر بن عبدالعزیز نے یہ ارشاد گرامی سننے کے بعد پھر مجھے یہ حکم دیا کہ میں غلام کی کمائی اس شخص سے لے لوں جسے دینے کے لئے مجھے پہلے حکم دیا گیا تھا ( شرح السنۃ)

تشریح :
منفعت ضمان یعنی تاوان کے ساتھ ہے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اگر وہ غلام خریدنے والے کے پاس مر جاتا یا اس میں کوئی نقص پیدا ہو جاتا تو ظاہر ہے کہ اس خریدار کا نقصان ہوتا بیچنے والے کا کچھ نہ جاتا اسی طرح غلام سے کوئی منفعت حاصل ہو گی تو اس کا حقدار خریدار ہی ہوگا بیچنے والے کا اس پر کوئی حق نہیں ہوگا۔

یہ حدیث شیئر کریں