بار بار کی شہادت بھی قرض کا کفارہ نہیں ہوسکتی
راوی:
وعن محمد بن عبد الله بن جحش قال : كنا جلوسا بفناء المسجد حيث يوضع الجنائز ورسول الله جالس بين ظهرينا فرفع رسول الله صلى الله عليه و سلم بصره قبل السماء فنظر ثم طأطأ بصره ووضع يده على جبهته قال : " سبحان الله سبحان الله ما نزل من التشديد ؟ " قال : فسكتنا يومنا وليلتنا فلم نر إلا خيرا حتى أصبحنا قال محمد : فسألت رسول الله صلى الله عليه و سلم : ما التشديد الذي نزل ؟ قال : " في الدين والذي نفس محمد بيده لو أن رجلا قتل في سبيل الله ثم عاش ثم قتل في سبيل الله ثم عاش ثم قتل في سبيل الله ثم عاش وعليه دين ما دخل الجنة حتى يقضى دينه " . رواه أحمد وفي شرح السنة نحوه
اور حضرت محمد بن عبداللہ بن جحش کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب اس صحن میں بیٹھے ہوۓ تھے جہاں جنازے لا کر رکھے جاتے تھے ہمارے درمیان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نظر آسمان کی طرف اٹھائی اور ادھر دیکھا پھر اپنی نظر جھکالی اور اپنا ہاتھ پیشانی پر رکھ کر انتہائی تعجب کے عالم میں فرمایا کہ سبحان اللہ سبحان اللہ کس قدر سختی نازل ہوئی ہے راوی کہتے ہیں کہ ہم خاموش رہے یعنی ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی سوال نہیں کیا ) یہاں تک کہ وہ پورا دن گزرا پوری رات گزری اور ہمیں اچھائی کے علاوہ کوئی سخت بات نظر نہیں آئی یعنی صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے یہ سمجھے کہ شاید اسی وقت کوئی عذاب نازل ہونیوالا ہے یا کوئی سخت مصیبت آنیوالی ہے مگر وہ پورا دن گزر گیا پوری رات گزر گئی نہ کوئی عذاب نازل ہونیوالا ہے یا کوئی سخت مصیبت مگر وہ پورا دن گزر گیا پوری رات گزر گئی نہ کوئی عذاب نازل ہوا اور نہ کوئی مصیبت پیش آئی تاآنکہ صبح ہو گئی حدیث کے راوی محمد بن عبداللہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ وہ کیا سختی ہے جو نازل ہوئی ہے اور جس کا اظہار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنے تعجب کے ساتھ کل فرمایا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دین یعنی قرض وغیرہ کے بارے میں وہ سختی نازل ہوئی ہے قسم ہے اس پاک ذات کی جس کے قبضے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اگر کوئی شخص اللہ کی راہ میں یعنی جہاد کرتے ہوئے مارا جائے اور پھر زندہ ہو پھر اللہ کی راہ میں مارا جائے اور پھر زندہ ہو پھر اللہ کی راہ میں مارا جائے اور پھر زندہ ہو اور اس پر قرض ہو تو وہ اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہوگا جب تک کہ اس کا قرض ادا نہ کر دیا جائے یعنی اگر کوئی قرض دار بار بار بھی اللہ کی راہ میں مارا جائے تو یہ بار بار کی شہادت بھی اس کے قرض کا کفارہ نہیں ہو سکتی) اس روایت کو امام احمد نے نقل کیا ہے نیز شرح السنہ میں بھی اسی طرح کی حدیث منقول ہے ( جس کا مضمون تو یہی ہے مگر الفاظ دوسرے ہیں)
تشریح :
اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ جنازہ کی نماز مسجد میں نہیں پڑھتے تھے بلکہ مسجد سے باہر دوسری جگہ پڑھتے تھے۔